دعوت، ہدایا اور تحائف کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان شخص کے یہاں کھانا کھایا جائے تو اس حسنِ ظن پر کہ یہ آمدنی اس کو حلال طریقہ ہی سے حاصل ہوئی ہو گی، اس کے بارے میں تحقیق و تفتیش نہ کرے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے :
اذا دخل احد کم علیٰ اخیہ المسلم نا طعمہ طعاماً فلیاء کل من طعام ولا یسائل عنہ، و ان سقاہ شراباً فلیشرب من شرابہ ولا یساءل عنہ (۱)
تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے ہاں جائے اور وہ اسے کھانا کھلائے تو کھا لے۔ اس کے بارے میں تفحص نہ کرے، کچھ پلائے تو پی لے اور تفحص نہ کرے۔
اس لئے کہ یہ ایک مسلمان سے سوء ظن اور بدگمانی ہے، اسی لئے فقہا کے یہاں قائدہ ہے :
الیقین لا یزول بالشک (۲)
یقین شک سے دور نہیں ہوتا۔
پس جب تک کسی کی آمدنی کے حرام ہونے کا یقین یا گمانِ غالب نہ ہو اور اس سلسلہ میں کوئی قرینہ یا شہادت موجود نہ ہو ایک مسلمان کے ساتھ حسن ظن کے تحت اسے حلال و مباح سمجھا جائے گا۔
ان اصول کے تحت ایسا شخص کہ جس کے پاس حلال و حرام دونوں طرح کی آمدنی ہو، کب اس کے ہدایا کا قبول کرنا جائز ہو گا اور کب نہیں؟ اس بارے میں فقہاء نے رہنمائی کی ہے کہ اگر کسی کی آمدنی کا غالب حصہ حرام آمدنی پر مشتمل ہو تو اس کے تحائف قبول کرنا یا اس کے یہاں کھانا جائز نہ ہو گا اور غالب حصہ حلال کا ہو تو ضیافت نیز تحائف کا قبول کرنا جائز ہو گا۔ البتہ اگر غالب آمدنی حرام ہو اور
--------------------------------------------------------------------
(۱) جمع الفوائد ص ۱/۲۹۷
(۲) الاشباہ ص : ۵۶۔