۱۱۰
فروتنی نمایاں تھی، خود ارشاد ہوا انا اکل کمایا کل العبد (۱) پیچھے یا آگے کی جانب ٹیک لگا کر کھانا یا بائیں ہاتھ کا سہارا لے کر کھانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین طریقوں سے کھانا ثابت ہے۔ اکڑوں، ایک پاؤں بچھا کر اور دوسرا اٹھا کر کھانا، تورک کے ساتھ بیٹھنا (۳)۔
اسی طرح کھانے کے طور و طریق میں بے جا تکلفات ( جو سادگی کے تقاضوں کے خلاف ہوں) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاقو سے کاٹ کر گوشت کھانے کو منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ اہل عجم کا طریقہ ہے "لا تقطعوا اللحم بالسکین فانہ من صنع الاعاجم (۴) لیکن یہ ممانعت کوئی حرمت کے درجہ کی نہیں ہے، کبھی آسانی کے لئے چھری کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بکرے کا دست کاٹ کر کھایا کرتے تھے۔ "کان یحتز من کتف شاۃ فی یدہ" (۵) اسی روایت کی روشنی میں ابن قدامہ نے لکھا ہے کہ چھری سے گوشت کے ٹکڑے کرنے میں کوئی حرج نہیں (۶) صاحبِ مجمع الانہر کا بیا ن ہے کہ " لا یکرہ قطع اللحم والخبز بالسکین (مجمع الانہر ص ۵۲۵ ج ۲)
روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میز پر کھانا نہیں کھایا (۷) ہاں دسترخوان کا استعمال کیا ہے (۸) اسی طرح طشتری بھی استعمال نہیں فرمائی۔
(۱)
(۲) بخاری باب الاکل متکئا ۲/۸۱۲ عن ابی حجیفۃ۔
(۳) زاد المعاد ۳/۱۶۱، فصل فی ھدیہ فی ہئیۃ الجلوس للاکل۔
(۴) ابو داؤد عن عائشہ، باب فی اکل اللحم ۲/۵۳۰۔
(۵) بخاری باب قطع اللحم بالسکین ۲/۸۱۴ عن عمرو بن امیۃ۔
(۶) المغنی ۷/۲۲۱۔
(۷) بخاری باب الخبز المرفق و الاکل علی الخوان ۲/۸۱۱۔
(۸) حوالہ سابق، عن قتادۃ رضی اللہ عنہ