ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
ہے زیادہ تر لوگوں کی ناکامی کا - اور پریشانی کا - ایک مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ حضرت بلا قصد اگر پچھلے گنا ہ یاد آجائیں تو اس وقت کیا کرنا چاہئے - فرمایا کہ توبہ خالص و کامل کرچکنے کے بعد دو امر کی ضرورت ہے - ایک تو یہ کہ خود ان گناہوں کا قصدا استحضار نہ کرے جو ماضی میں گزر چکے ہیں اور جب سے توبہ کرچکا ہے اور دوسرے آئندہ کے نہ ہونے کی فکر میں پڑے - ماضی کا غم اور مستقبل کی فکر یہ دونوں حجاب ہیں اسی کو مولانا فرماتے ہیں - ماضی و مستقبلت پردۃ خدا است خلاصہ یہ ہے کہ قصدا گناہوں کا استحضار نہ کرنا چاہئے اس سے بندے اور خدا کے درمیان حجاب ہوجاتا ہے البتہ جو گناہ بلا قصد یاس آجاوے اس پر مکرر استغفار کر کے پھر اپنے کام لگ جاوے زیادہ کاوش نہ کرے - البتہ اگر کسی کو استحضار سے ہی کیفیت حجاب کی نہ ہوتی ہو اس کے لئے مضر نہیں مگر پھر بھی ایسا مبالغہ اور غلو نہ کرے جیسے مولانا رائپوری کے پہلے پیر شاہ عبد الرحیم صاحب ایک قصہ فرماتے تھے کہ رمی جمار کے موقعہ پر میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ ایک لمبا سا جوتہ لئے شیطان کو مار رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ تونے فلاں دن مجھ سے زنا کریاتھا فلاں دن چوری کرائی تھی فلاں فلاں دن گناہ کرائے تھے - شاہ صاحب نے ٹوکا کہ یہ کیا واہیات حرکت ہے توبہت خفا ہوا اور کہا کہ جو اس کا ساتھی ہے وہ بھی آجاوے - شاہ صحب نے کہا کہ بھائی میرا کیا بگڑتا ہے بلکہ میری طرف سے بھی دو جوتے لگادے - مجھے بھی بہت پریشان کیا ہے - بعضے جاہل ترک تو وہاں بجائے کنکریوں کے بندوق سے گولیاں مارا کرتے تھے - یہ سمجھتے ہوں گے کہ کنکریوں سے شیطان پر کیا اثر ہوگا اس ضبیث پر تو گولیں برسانی چاہیں - ایسی فضولیات اور خرافات میں پڑنا حقیقت میں اپنے وقت کو برباد کرنا ہے - حضرت رابعہ بصریہ نے تو بلا ضرورت شیطان پر لعنت کرنے کو بھی پسند نہیں فرمایا - پھر ان ہی مولوی صاحب نے حدیث کی اس دعا کا مطلب دریافت کیا اللھم اجعل و ساوس قلبی خشیتک و ذکرک و اجعل ھمتی وھو ای فیما تحب و ترضیٰ فرمایا کہ اس کے تین معنی ہوسکتے ہیں - ایک یہ بجائے وساوس کے خشیت و ذکر قلب میں پیدا ہوجائے اور جعل ایسا ہوگا جیسا اس حدیث میں ہے من