ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
شش عید کے روزوں کا ادغام قضا کے روزوں کے ساتھ ہوسکتا ہے یا نہیں ' اس کی تحقیق فرمایا کہ بعض کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ جس پر قضا کے روزے ہوں اور وہ ان کو شوال کے مہینہ میں رکھ لے تو دونوں حساب میں لگ جاتے ہیں - یعنی قضا روزے رکھنے سے شش عید کے روزوں کا ثواب بھی مل جاتا ہے جیسے بعد وضو فرض یا سنتیں پڑھنے سے تحتیۃ الوضو پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد کے مشروعیت کی بنا ہے کہ کوئی وضو اور حاضری مسجد نماز سے خالی نہ ہو اور فرض سنتیں پڑھنے سے یہ مصلحت حاصل ہوجاتی ہے اس واسطے تحیۃ الوضو یا تحیۃ المسجد پڑھنے کی علیحدہ ضرورت نہ رہی اور وہ سنت یا فرض میں متداخل ہو گئیں اگرچہ مستقلا پڑھنا اولیٰ ہے بخلاف شش عید کے روزوں کے کہ ان کی فضیلت کی بنا یہ ہے کہ ان کے رکھ لینے سے سال بھر کا حساب برابر اس طرح ہوجاتا ہے کہ حق تعالیٰ کے یہاں ایک نیکی کی دس نیکیاں ملتی ہیں چنانچہ ارشاد ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا جب کسی نے رمضان شریف کے روزے رکھے تو دس ماہ کی برابر تو وہ ہوئے اور چھ روزے شش عید کے دوماہ کے برابر ہوئے اس طرح پورا سال ہوگیا پس سال بھر کا حساب پورا کرنے کے لئے مستقلا قضا اور شش عید دونوں جداجدا رکھنے ہوں گے اور نماز میں تداخل ہونا روزہ کے تداخل کو مستلزم نہیں - اگر یہ شبہ ہو کہ ان روزوں کے لئے شوال ہی کی کیا تخصیص ہے قاعدہ تو عام ہے من جاء بالحسۃ فلہ عشر امثالھا اس لئے جس ماہ میں بھی رکھے گا ثواب اسی قدر ملے گا جواب یہ ہے اور بڑے کام کی بات ہے شوال کی تخصیص اس لئے ہے کہ کوشش عید کے روزوں کا ثواب جو دوماہ کے برابر ہوگا تو وہ دوماہ رمضان ہی کے برابر شمار ہوں گے یعنی ان روزوں کا ایسا ہی ثواب ملے گا جیسے رمضان شریف کے روزوں کا بخلاف اس کے کہ اگر کسی نے ذیقعدہ یا کسی دوسرے مہینوں میں رکھے تو اس کو فضیلت رمضان کے روزہ کے برابر نہ ملےگی مطلق تضاعف ہوجائے گا - غیر مختار حظافت منجانب اللہ ہوتی ہے فرمایا کہ جب تک آدمی اپنے اختیار کا نہیں ہوتا اس کی حظافت من جانب اللہ ہوتی