ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
نہ ہو اس کے لئے مال ہی فراغ کا ذریعہ ہے اس کو خصوصیت کے ساتھ ہرگز مال ضائع نہ کرنا چاہئے یعنی بے موقع خرچ نہ کریں - آج کل قوی القلب لوگ کم ہیں اور یہ حالت ہے کہ ذرا سی تنگی پیش آئے تو بھٹکے پھرتے ہیں حتیٰ کہ نعوذ باللہ بعضے مرتد ہوجاتے ہیں - مال کا نہ رکھنا اور فقر و زہد اختیار کرنا تو استحاب کا درجہ ہے اس کے لئے ایمان کھوتا کیسی سخت بات ہے اس واسطے آج کل عام مجمع میں زہد کی تعلیم دینا ٹھیک نہیں - ہاں اس تعلیم کی ضرورت ہے کہ مال حرام ذرائع سے نہ کماؤ یہ درجہ ذہد کا ہر حالت میں ضروری ہے - کثرت قیل و قال و کثرت سوال وا ضاعت مال کے مناشی اور انکار ظاہر باطنی علاج فرمایا کہ کثرت قیل و قال کی جڑ ترفع ہے اور کثرت سوال ( بمعنی مانگنا ) کی جڑ بے حیائی ہے اور کثرت سوال ( بمعنی زیادہ پوچھنا ) یعنی علماء کو لا یعنی سوالات سے دق کرنا ) اس کی اصل عمل کا رادہ نہ ہونا ہے - مطلب یہ کہ زیادہ چون و چرا وہی کرتا ہے جس کو کام کرنا نہیں ہوتا اور اضاعت مال یعنی اسراف کی اصل قلت شکر تو یہ چار چیزیں تو عمل ظاہری کے مرتبہ میں ہوئیں یعنی کثرت قیل وقال کثرت سوال بہر دو معنی واضاعت مال - مجموعی علاج ان ظاہری اعمال کا یہ کہ ہمت کر کے ان سب کو ترک کرے - اور باطنی چار چیزیں جو ان چار ظاہری اعمال کی اصل تھیں - یعنی ترفع بے حیائی عمل کا ارادہ نہ کرنا اور قلت شکر ان کا مجموعی علاج ایک ذکر اللہ ہے - ذکر سے میری مراو ابانی ذکر نہیں بلکہ قلبی ہے کو مرکز ہے ذکر لسانی کا مطلب یہ ہے کہ ذکر کی اتنی کثرت کی جاوے کہ وہ قلب میں رچ جاوے جب ذکر قلب میں رچ جاتا ہے تو معاصی درو ہٹ جاتے ہیں - اور دوسرے چیز یہ ہے کہ ہرکام کا انجام سوچا کرو قلب کی اصلاح اس سے بہت ہوتی ہے اگر اس کا پورا التزام کرلیا جاوے تو نہ قیل و قال رہے کیونکہ خیال ہوگا کہ اس کا نتیجہ کیا ہے کم سے کم لایعنی تو ضرور ہے اور نہ کثرت سوا ل رہے گی بہ ہر دومعنی کیونکہ مانگنے کا انجام خیال میں آئے گا کہ آلت ہے جو طبعا و شرعا دونوں طرح مذموم ہے اور بیجا سوالات کا انجام یہ خیال میں آئے گا کہ اہل الہ کو تکلیف دینا