ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
طالب کے لئے تزئین نامناسب طریق ہے ایک مولوی صاحب جو کہ لباس بہت زینت کا پہنئے ہوئے تھے انہوں نے حضرت والا کو بعد ظہر پرچہ دیا جس میں اپنے وظائف کا حال لکھا تھا - فرمایا کہ گنگاپار کی طرف زینت بہت ہے - وہاں کے بعض مقتدا ومشائخ اہل نسبت بھی زینت میں بمتلا ہیں - جب آپ کا قلب اس میں مشغول ہے تو پھر اللہ کی یاد کی گنجائش کہاں ہے - ان وظائف سے کچھ نفع نہ ہوگا - ایسی حالت میں طالبان دنیا اور طالبان حق میں کیا فرق ہوا - عورت کے لئے زینت مناسب ہے - مردوں کو ہرگز ایسی زینت مناسب نہیں - آپ میرے پھندے میں کیوں پہنسے ہیں - میں تو آزاد آدمی ہوں رسوم کو جڑ سے اکھاڑتا ہوں - چاہئے وہ علما کے رسوم ہیں یا مشائخ کے ہوں - میں طالب کی دلجوئی نہیں کرتا کیونکہ اس کی دلوشوئی کی ضرورت ہے نہ کہ دلجوئی کی - ہاں طالب کی بھی خاطر ہوتی ہے جبکہ وہ اصلاح قبول کرلیتا ہے پھر اس سے بڑھ کر کسی خاطر نہیں ہوتی - اہل اللہ کے قلب میں کسی کی ہیبت نہیں ہوتی فرمایا کہ اہل علم کے دل میں کسی کی ہیبت نہیں ہوتی یوں کسی مضرت کی وجہ سے ڈر جاویں اور بات ہے ایسے تو آدمی کھنے کتے سے بھی ڈرتا ہے مگر ان کے دل پر کسی کی ہیبت نہیں ہوتی - اس پر یہ قصہ فرمایا کہ مولوی فضل حق صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو قطرہ کا عارضہ ہوگیا تھا اس وجہ سے وہ ڈھلئے نہ لیتے تھے صرف پانی اسنجا کر لیتے تھے کسی متعصب شیعی نے طور پر کہا کہ اب تو آپ بھی پانی سے استنجا کرنے لگے ہیں - مولوی صاحب فی البدیہ جواب دیا کہ جب سے مجھے سلسل بول کا عارضہ ہوگیا ہے تب سے میں شیعوں جے مزہب پر پیشاب کرنے لگاوں - طالب کا کام فرمایا کہ کیفیات سے وصول یا حربان پر استدلال کرنا یہ مستعلج کا کام نہیں ہے کہ اول میں عجب کا خدشہ ہے اور ثانی میں ناشکری کا اور دونوں سالب نعمت ہیں طالب کا وظیفہ یہ ہے کہ حالت کی اطلاع دے اور اس حالت کی تحقیق معالج کا کام ہے -