ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
غریز یہ جو مرکب ہے روح کا اس کی مثال شعلہ چراغ کی سی ہے - جیسے تیل ختم ہو کر چراغ گل ہوجاتا ہے اسی طرح رطوبت فنا ہو کر روح ختم ہوجاتی ہے - پس ختم ہونے والی چیز سے زیادہ کیا جی لگانا خدا تعالیٰ سے دل لگانا چاہئے - دنیا کی محبت تو بر سر آب ہے - مولانا فرماتے ہیں - عشق بامردہ بناشد پائیدار عشق باجی و باقیوم دار عاشقی با مردگان پائندہ نیست زانکہ مردہ سوئے ما آئندہ نیست غرق عشقی شوکہ غرق است اندریں عشقہائے اولیں وآخریں غرض غم کے ہلکا کرنے کے لئے یہ عجیب تعلیم ہے - ماعند کم ینفدو ماعند اللہ باق یعنی خدا تعالیٰ کے یہاں کی چیزیں باقی ہیں اور وہی رغبت کے قابل ہیں - پھر یہ بھی سوچو کہ آدمی مر کرجاتا کہاں ہے ظاہر ہے کہ خدا کے پاس جاتا ہے تو اب تو وہ ماعند اللہ میں داخل ہوگیا - پہلے وہ ماعندکم کا مصداق تھا - اس وقت وہ فانی تھا اور اب باقی ہوگا ہے کیونکہ اس موت کےبعد پھر موت نہیں تو اب تو وہ مرنے کے بعد پہلی حیات سے اچھی حیات میں پہنچ گیا وہ پہلی فانی تھی اور دوسری باقی ہے پس ہمیں مرغوب شے ( مثلا اپنا محبوب ) سے محبت اس حیثیت سے زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ خدا کے پاس ہے بہ نسبت اس حیثیت کے کہ وہ ہمارے پاس ہے - چنانچہ اس مضمون کو ایک بدوی نے خوب سمجھا اور حضرت عباس کے انتقال پر حضرت عباس کی تسلی یوں کی - خیر من العباس اجرک بعدہ واللہ خیر منک للعباس مطلب یہ کہ اے ابن عباس صبر پر تم کو عباس فانی کے عوض اجر باقی ملا اور عباس اب عباس باقی ہوگئے یعنی اور زیادہ مرغوب حالت میں ہوگئے تو نہ تمہارا کچھ نقصان ہوا نہ ان کا پھر کا ہے کا غم - شوق آخرت پیدا کرنے کا سہل طریقہ فرمایا کہ لوگ عام طور سے یہ سمجھتے ہیں کہ جب انسان مرجاتا ہے قبر میں اس کو ڈال آتے ہیں وہاں وحشت کدہ میں تنہا پڑا رہتا ہے اور ایسی حیات مثل عدم حیات کے ہے - صاحبو یہ نہیں ہے بلکہ مسلمان کے لئے وہاں بڑی راحت ہے - حدیث شریف میں ہے کہ ارواح اس کا استقبال کرتی ہیں یعنی اس کے عزیز قریب جو اس سے پہلے چلے گئے ہیں وہ