ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
گئی تہجد بھی پڑھ لیاجاوے ورنہ جب تک قوت نہ آجائے اس کا ایتمام نہ کیا جاوے - فضایل کی احادیث میں قیام اللیل وصلوءۃ اللیل کا عنوان بکثرت وادر ہے جس سے نفس فضلیت کا حاصل ہوجانا ثابت ہوتا ہے اور باپ میں یہ اور تہجد مشارک ہیں - اب رہ گئی زیادہ فضیلت اور قیام بعد النوم کے ساتھ خاص ہے خواہ نوم حقیقتا ہو خواہ حکما ( یعنی اول شب آخرتک بیدار رہا اور اسیے وقت نماز پڑھی کہ اس قبل عادۃ نوم ہوا کرتی ہے ( اس زیارت کے لئے قلق کرنا ایسا ہے جیسا رمضان میں کسی کی آنکھ سحور کے لئے نہ کھلے مگر روزہ کی توفیق ہو اور روزہ سے اتنا مسرور نہیں ہوتا جتنا فضیلت سحور کے فوت ہونے سے محزون ہوتا ہے تو کیا یہ حزن طبعی عقلا بھی مطلوب ہے خصوص جب حدیث میں تصریح ہے کہ اگر اٹھے کا رادہ ہو اور آنکھ نہ کھلے کام نومہ علیہ صدقۃ اور قوی کا مساعدت نہ کرنا بجائے آنکھ نہ کھلنے کے ہے لکون ک منھا عذرا اللہ اعلم - اس زیارت کرنے کے لئے قلق کرنے کی مثال فرمایا کہ احکام آخرت کا مدار عامل کی نیت اور عمل پر ہے نہ کہ واقعہ پریس اگر کسی کو اپنی طہارت وادائیگی شرائط اذکار وعبادت کا علم اپنے زعم میں تو ہے گویا اعتبار واقع کے نہیں تو اس حالت قبول موعود ہے ان اللہ کا یخلف المیعاد عدم قبول ومطرودیت اختیاری کوتاہی پر ہوتی ہے نہ کہ غیر اختیاری معلوم ہونے کے لئے غیر اختیار ہونا لازم ہے - اللہ تعالیٰ کے رضائے واقعی معلوم کر نیکی صورت اور مومن کی حیثیت کے وجوہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا واقعی معلوم کرنے کی صورت ان کا وعدہ اور شرائط وعدہ کا تحقق ہے - اور اس پر بھی جو خشیت مومن کے لئے لازم ہے اس کی دووجہ ہیں ایک تو مال میں احتمال کہ شاید کوئی اختیاری کوتاہی ہوجاوے دوسرے یہ کہ شاید کوئی اختیاری کوتاہی فی الحال ہوگئی ہو - جس کا علم بھی التفاوت سے ہوسکتا تھا اور التفات میں کوئی کوتاہی ہوئی ہی کہ یہ بھی اختیاری ہے -