ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
علیہ وسلم ) کے یعنی ہرامر اور ہر حال میں پیغبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی اس کے قبلہ وکعبہ ہوں - نفس کو قابو میں لانا اصل چیز ہے فرمایا کہ خواجہ عبید اللہ انصاری احرار فرماتے ہیں - بر ہوا پری مکسے باشی بر آب روی خسے باشی دل ( خود ) بدست آرکہ کسے باشی فنا کا درجہ اعلیٰ درجہ ہے محبت کا فرمایا کہ فنا کا درجہ ہے محبت کا - یعنی تمام تعلقات غیر اللہ اس قدر مغلوب ہو جائیں کہ کوئی نہ معبود ہونے میں شریک رہے جوحاصل ہے لا الہ الا اللہ کا اور نہ مقصود ہونے میں شریک رہے جو حاصل ہے - فلیعمل عملا صالحا الا یشرک بعبادۃ ربہ احدا اور نہ سالک کی نظر میں موجود ہونے میں شریک رہے جو حاصل ہے - کل شی ھالک الا وجھہ کا اہل کو اللہ کو مجنون کا لقب کیوں دیا جاتا ہے فرمایا کہ جو شخص اعلیٰ درجہ کا محب ہوتا ہے اس کے افعال عقل معاش اور دینوی مصلحت کے خلاف ہونے لگتے ہیں اسی لئے دنیا دار ان کو پاگل و مجنوں کا لقب دینے لگتے ہیں چنانچہ کفار مکہ نئ صاحبہ کو السفھاء کہا جاتا تھا کیونکہ وہ حضرات سب اعزہ اقربا کو چھوڑ کر اور مال و متاع کو خیر باد کہہ کر ایمان لائے تھے - حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر وساحر کیوں کہا جاتا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک میں ایسا اثر تھا کہ جب کفار سنتے تھے تو انکے خیالات میں عظیم الشان تبدیلی واقع ہوجاتی تھی پس طرز بیان کی تاثیر کوتو شاعری اور مضمون کی تاثیر کو ساحری کہتے ہیں - جن کی باطنی آنکھ پٹ ہے وہ باطنی دولت کو کیا جانیں فرمایا کہ اندھے مادرزاد کو کیا خبر کہ نظر کسے کہتے ہیں اور روشنی کیسی ہوتی ہے - عنین کیا