ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
لوگ کرتے ہیں میں تو اس سے بھی زیادہ بر ہوں - یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے اصل عیوب کو چھپالیا میرے عیوب تو اس سے بھی زیادہ ہیں پھر برا کیوں مانے - جیسے اندھے کو کوئی کانا کہہ دے تو اس کو شکر گزار ہونا چاہئے اگر خوش بھی نہ ہو تو اس اہتمام میں تو نہ پڑے کہ مجھے کیوں برا کہا - اور کون کون اس میں شامل تھا - اور کیا معنی ہوا برا کہنے کا اور اس کا دفعیہ کیا ہے وغیرہ وغیرہ تعدیہ امراض کی تحقیق ایک صاحب نے سوال کیا کہ حدیث میں ہے '' لاعدوی '' یعنی مرض کا تعدیہ نہیں ہوتا اس کے کیا معنی ہیں کیا تعدیہ بالکل منفی ہے - فرمایا کہ دوحدیثیں ہیں ایک تو لا عدوی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعدیہ امراض کا نہیں ہوتا اور دوسری حدیث ہے فرمن المجزوم کما تفر من الاسد کہ جزامی سے ایسا بھاگو جیسے شیر بھاگتے ہو - یہ ابن ماجہ کی رواپت ہے اس سے ظاہرا بعض امراض کا تعدیہ معلوم ہوتا ہے یہاں دو وجہ تطبیق کی ہیں بعض تو عدوی کے قائل ہوئے ہیں کہ امراض میں تعدیہ ہوتا ہے اور لاعدوے میں تاویل کی ہے وہ یہ کہ امراض کی ذات میں تعدیہ نہیں جیسے اہل سائنس بالزات کے قائل ہیں کہ امراض کی ذات میں تعدیہ ہے لا عدد ہے میں اس کی نفی ہے - باقی جہاں خدا تعالیٰ کا حکم تعدیہ کا ہوتا ہے وہاں تعدیہ ہوجاتا ہے اور بعض نے لا عدوی کو مطلق کہا ہے کہ تعدیہ بالکل ہوتا ہی نہیں - باقی مجزوم والی حدیث جو بچنے کو فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پاس جانے والے کو اگر اتفاق سے یہ مرض ہوگیا وہ یہی سمجھے گا کہ اس بیماری لگ گئی اور اس اعتقاد سے بچنے کے لئے آپ نے اختلاط سے منع فرمایا - خلاصہ یہ کہ بعض نے لا عدوی میں تاویل کی ہے اور بعض نے مجزوم والی حدیث میں - مگر اقرب یہ ہے کہ تعدیہ ہوتا ہے مگر باذن الہیٰ ہوتا ہے اور بلا اذن نہیں چنانچہ بریلی میں ایک بنگالی ہندو کا قصہ ہوا کہ اس کا لڑکا مبتلائے طاعون ہوا - وہ ہندو اس کے پاس برابر لیٹتا تھا - اس کا سانس اوپر آتا تھا وہ لڑکا مرگیا - اس کو اس قدر صدمہ ہوا کہ اس کو اپنی زندگی بار معلوم ہونے لگی اس لئے قصدا اس کی استعمال چیزیں خوب استعمال کرتا تھا کہ میں بھی مرجاؤں گا مگر نہیں مرا - بتلایئے کہ اگر تعدیہ بالزات ہوتا وہ کیوں بچتا - اسی طرح اگر تعدیہ بالذات مانا جاوے تو اگر کسی جگہ