ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
ہے بلکہ اس وجہ سے کہ بندہ کو دوام مشاہدہ کا تحمل نہیں - کیونکہ دنیا میں تجلی دائمی سے بندہ مغلوب ہوجاتا ہے اور ہر وقت ایک استغراق کیفیت طاری رہتی ہے اور مغلوبیت میں اعمال کے اندر کمی آجاتی ہے جس سے قریب کم ہوجاتا ہے کیونکہ مدار قرب ہی پر ہے - اس لئے حق تعالیٰ نے یہ تو نہیں کیا کہ حضور تام کے ہوتے ہوئے یارویت کے ہوتے ہوئے حضور یا رویت سے منع کردیا ہو کیونکہ یہ صورت سالک کے لئے اشد ہے بلکہ یہ کیا کہ سالک کو مخلوق کی طرف متوجہ کردیا اور جنت میں بعض اوقات لزائز نفس کی طرف متوجہ کردیں گے - اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک محبوب نے عاشق کو دیکھا کہ بڑے غور سے مجھے تک رہا ہے - اس کو اندیشیہ ہوا کہ کہیں زیادہ دیکھنے سے مراد جاوے تو اب ایک صورت تو یہ تھی کہ عاشق کو اپنے سامنے رکھ کر دیدار سے منع کردے کہ ہم کو مت دیکھو - یہ صورت بہت سخت ہے - اس میں عاشق کو سخت بے چینی ہوتی ہے - اس لئے محبوب نے یہ تو نہیں کیا بلکہ اس نے تھوڑی دیر کے واسطے عاشق کا بازار بھیج دیا جاؤ آم لے آؤ اس صورت میں محبوب سے فی الجملہ استتار ہو گیا مگر اس سے شوق معتدل ہوجاوے گا اور بازار جانے میں عاشق کی لزت بھی کم نہیں ہوتی کیونکہ تعمیل حکم محبوب کی بھی ایک خاص لزت ہے جو لزت ہے جو دیدار ہی کے قریب ہے ( عشاق اس کو خوب سمجھتے ہیں ) اسی طرح حق تعالیٰ نے بھی حضور تام تجلی باقی رکھ کر دیدار مشاہدہ سے منع نہیں کیا بلکہ تجلی کو مستتر کردیا اور عشاق کی دوسری طرف متوجہ کردیا کہ ہر وقت حضور ومشاہدہ سے عشاق کے دل پھٹ نہ جاویں اور اس کا شوق معتدل رہے - نعمت ۔۔ فرمایا کہ یادرکھو بلا ومصیبت بحثییت متبنہ اور متوجہ کرنے کے ( حق تعالیٰ کی طرف نعمت ہے اور نعمت بحثییت ڈھیل اور دھوکہ دینے کے مصیبت ہے - حسن ظن وقوت رجا شرط قبولیت دعا ہے فرمایا کہ دعا کرتے وقت حسن ظن اور قوت رجا کو اپنا وقت رکھو پھر ثمرہ دیکھو کہ کامیابی ہی ہوگی - حق تعالیٰ کے کرم کی ایک دلیل فرمایا کہ یہ غایت کرم دلیل ہے کہ نماز حقیقت میں ہمارا کام ہے اور اس کا نفع