ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
چیزوں سے رغبت تھی اس سے بھی رغبت تھی - کیا حد ہے اس زیادتی کی - ایک سب انسپکٹر بیان کرتے تھے کہ میرے یہاں تھانہ میں رپٹ ہوئی کہ میری فاتحہ کوئی شخص چرالے گیا - چنانچہ میں تحقیقات کو گیا معلوم ہوا کہ ایک نلکی میں پیر جی نے فاتحہ بند کر کے دیدی تھی اور روئی کی ڈاٹ لگادی تھی کہ جب فاتحہ دینا ہو تو اس نلکی کو کھول کر کھانے پر جھاڑ دیا کرو - سال کے بعد وہ دل جاتی تھی - ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص فاتحہ وغیرہ احتیاط سے کرے تو جواب میں فرمایا بدوں قیود کے کریں اور بات اور قابل غور ہے کہ کھانا سامنے لا کر جو فاتحہ دیتے ہیں یہ عقل کے خلاف ہے کیونکہ کسی چیز کے ثواب ملنے کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے عمل کریں کہ اس ثواب اپنے کو ملے اس کے بعد دعا کریں کہ یا اللہ جو ثواب مجھ کو ملا ہے وہ فلاں کو پہنچ جاوے اس بنا پر صورت یہ ہونی چاہئے کہ پہلے کھانا مستحقین کو دے دیں کہ ثواب اس کا اپنا ہوکاوے پھر دعا کریں کہ اللہ دوسرے کی طرف اس کو منتقل فرمادیں - اس سے ظاہر ہوگیا کہ کھانا پر فاتحہ دینے کے کچھ معنی نہیں بالکل لغو حرکت ہے دوسرے یہ کہ فاتحہ میں کل کھانا سامنے نہیں رکھتے تھوڑا سارکھتے ہیں اور اس پر فاتحہ دیتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ اتنے ہی کھانے کا ثواب پہنچانا مقصود ہے یاکل کا صرف اسی مقدار ہونا تو ان کے نزدیک بھی نہیںتو اس معلوم ہوا کہ سامنے رکھنا شرط نہیں پھر یہ تھوڑا کیوں سامنے رکھا گیا کیا اللہ میاں کو نمونہ دکھاتے ہیں یہ تو اور بھی لغوحرکت ہے - چاندی خریدنے میں مائع کو نوٹ دینے کا حکم فرمایا کہ چاندی خرید نے میں مشتری اگر بائع کو نوٹ دے تو جائز نہیں اس لئے کہ ثمن اور بیع کا دست ہونا شرط ہے اور نوٹ روپیہ نہیں ہے - بلکہ یوں کرنا چاہئے کہ پہلے کہیں سے یا خود بائع سے نوٹ کا روپیہ قیمت میں دے دے - کھوٹے سکہ کا حکم ایک صاحب نے دریافت کیا کہ خراب دو آنی وغیرہ آگئی ان کا چلا دینا جائز ہے یا