ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
نہیں - چنانچہ بعض بعض صورتوں کو نہایت طعن آمیز عنوان سے ذکر کیا ہے اور براہ زیادتی سب کو ایک لکڑی ہانکا ہے - تو کون کہہ سکتا ہے کہ پوچھنا مقصود ہے صریح سب و شتم مقصود ہے جس میں ایک کا جواب بھی ذمہ نہیں - یہ تو سوال نہیں حکومت ہے جس کا آپ کو کوئی حق حاصل نہیں - آپ کو جس طرح اپنی مصلحت پر نظر ہے دوسروں کو ابھی اپنی مصلحت پر نظر ہے پھر اگر کسی کثیر المشاغل نے اپنے سہولت کے واسطے کچھ خاص انتظامات تجویز کر لئے تو کونسا گناہ کیا جو آپ خواہ مخواہ آپے سے باہر ہوتے ہیں - ناتمام پتہ کا آپ بہت آسانی سے انتظام کرسکتا تھے کہ خود لفافہ پر لکھ کر وہ لفافہ کے اندر رکھ دیتے گویا آپ تو نواب ہوئے اور درسرا آپ کا نوکر - اس پر پھر اعتقاد کا دعویٰ - مہربانی کر کے جوبے نفس یا بے حس اور اس خطاب کو منافی اعتقاد نہ سمجھے اس سے اپنے سوالوں کو حل کر لیجئے - ہم خؤشامد پسند کو چھوڑ دیجئے - آپ فتویٰ کیا پوچھ رہے ہیں خود فتویٰ دے رہے ہیں بہت صبر کر کے اتنا لکھا ہے قیامت میں معلوم ہوگا کس کی زیادتی ہے - ف " - اس قدر ضبط و تحمل سے حضرت والا کا ابو الحال ہونا صاف ظاہر ہے - رسوخ عظمت حق شدت تعلق مع اللہ فرمایا اللہ تعالیٰ کی اس قدر بڑی شان ہے کہ اگر شاہان دنیا کی طرح اس کے خطاب کے لئے مناسب شان القاب وآداب کی قید ہوتی تو عمریں تمام ہوجاتیں اور ایک بار بھی اس کے نام لینے کی نوبت نہ آتی - القاب وا آداب ہی کبھی ختم نہ ہوتے - لوگ نام لینے کے لئے ترس جاتے لیکن اللہ اکبر کیا رحمت ہے کہ اپنے نام لینے کے لئے کسی قسم کی قید نہیں - جس وقت اور جس حالت میں جی چاہئے اس کانام لے کر خطاب کرسکتے ہیں بجز چند خاص موقعوں اور چند خاص حالات کے اس وقت زبان سے ذکر کرنا خلاف ادب ہے - غریب سے لے کر امیر تک اور عابد و زاہد سے کر فاسق وفاجر تک ہر شخص کو بے تکلف خطاب کرنے کی اجازت ہے ورنہ اس کی عظمت وجلال کا مقتضا تو یہ تھا کہ ہماری زبان اگر سات سمندر کے پانی سے بھی دھوئی جاتی تب بھی اس کے نام لینے کے قابل نہ ہوتی کسی نے خوب کہا ہے - ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام گفتن کمال بے ادبی است