ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
وہ بڑے آدمی ہیں تنہائی جانے میں ان کی سبکی بھی ہے اور خوف بھی ہے کہ کہیں کتا وغیرہ نہ پریشان کرے میں امراء کی خوشامد تو نہیں کرتا لیکن اس کا بہت خیال رہتا ہے کہ کوئی بات ان کے شان کے خلاف نہ ہو - حافظ صاحب سے میں نے کہہ دیا کہ ایک گھنٹہ کے بعد آپ میری اطلاع کرنا کہ میں درو پہنچ جاؤں - گاڑی شیخ صاحب کے انتظام ہیں وہیں کھڑی رہی لیکن میں اتر کر پیدل چلنے لگا تاکہ بہٹ سے جتنا بڑھ جاؤں اچھا ہے غرض اس کا بڑا اہتمام کیا کہ شاہ صاحب کو اطلاع نہ ہونے پاوے گو وہ بہت مخلص اور بڑے رئیس ہیں ان کے نزدیک ایک چھکڑا کردینا کچھ بھی نہیں تھا - لیکن مجھے خود اس کا سبب بننا ہرگز گوارا نہ ہو - شرم آئی کہ ان سے ملنا تو گویا خود سواری مانگنا ہے - ہاں لوٹتے وقت ملنے کا خود ارادہ تھا - پھر اگلے روز وہ خود رائے پور گئے - اور واپسی میں انہوں نے خود اپنی ٹم ٹم پر بٹھلایا اس میں میں نے زرا عذر نہیں کیا - کیونکہ خود مانگتا تو تذلل تھا اور کہنے پر نہ جانا تکبر ہے اور یہ دونوں برے - ف: - اس سے حضرت والا کی نفرت سوال سے نیز تملق امراء سے بدرجہ غایت ثابت ہوئی - حیا ء وغیرت فرمایا کہ الحمد للہ مجھ میں غیرت کا مادہ بہت ہے یہان تک کہ اس پر بھی غیرت ہوتی کہ شاہ صاحب کو ( جن کا قصہ اوپر ملفوظ میں ہے ) میری غیرت کا بھی حال معلوم ہو اور اس غیرت کو بھی میں نے اس چھپایا تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو بلکہ ان سے کچھ اور عذر کردیا تھا - پھر فرمایا کہ غیرت ایک ایسی چیز ہے جس سے آدمی سینکڑوں گناہوں سے خود بخود محفوظ رہتا ہے غیرت قریب قریب سب گناہوں کے لئے محافظ ہے - بہت سے ایسے ایسے باریک گناہ ہیں کہ جن کو عقل بھی نہیں سوچ سکتی لیکن جس میں غیرت کا مادہ ہوتا ہے اس کی طبیعت میں خود بخود کھٹک جاتے ہیں پھر سوچنے سے ملعوم ہوتا ہے کہ واعقی یہ تو کھلا ہوا گنا ہ تھا - عقل کہاں تک سوچ سکتی ہے - جب ہی تو ایمان کے شعبوں میں سے افضل اور ادنیٰ کا ذکر کے حیا کا خاص طور سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمایا کہ الحیا ء شعبۃ من الایمان حالانکہ ضرورت نہ تھی کیونکہ اور شعبے بھی تو غیر مذکور تھے - اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیاء اور غیرت بڑا بھاری شعبہ ہے ایمان کا -