ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
ترک کی دوقسمیں فرمایا کہ ترک کی دوقسمیں ہیں ترک وجودی وترک عدمی - جس ترک کا انسان مکلف بنایا گیا ہے وہ ترک وجودی ہے جو اپنے اختیار وقصد سے ہو - مثلا کوئی عورت چلی جارہی ہے جی چاہا کہ لاؤ اے دیکھیں پھر نگاہ کو روک لیا اجر اسی ترک پر ملتا ہے - اور ترک عدمی وہ ہے کہ اپنے قصد واختیار کا اس میں کچھ دخل نہ ہو ( اور چونکہ اختیار وقصد کا مسبوق بالعلم ہونا ضروری ہے اس لئے یہ ترک ( عدمی ) مسبوق بالعلم بھی نہیں - مثلا اس وقت ہم ہزاروں گناہوں کو نہیں کررہے ہیں - تو اس پر اجر بھی نہیں - سالک کے احوال کی تبدیلوں کا بیان فرمایا کہ جو خدا کے رستہ میں چلنا شروع کرتا ہے تو حق تعالیٰ سب سے پہلے اس کے ملکات کو بدلتے ہیں جس سے اعانت ہوتی ہے طاعت کے دوام واستقامت پر اور معاصی سے اجتناب پر ( کیونکہ افعال تابع ہوتے ہیں ملکات کے جب ملکات درست ہوگئے تومعاصی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے اور ملکہ وہداعیہ ہے جو اندر دے تقاضا کرتا ہے جس کا اثر یہ ہے کہ فعل سہولت سے صادر ہوجاتا ہے ) مطلب تبدیل ملکات سے یہ ہے کہ دواعی خیر کے تو قوی ہو جاتے ہیں اور دواعی کے شر کے ضعیف ' نیکی کا تو ہر وقت تقاضا ہوتا رہتا ہے اور برائی کا بالکل تقاضا نہیں ہوتا بلکہ ترک طاعت اور ارتکاب معصیت ایسا دشوار ہوجاتا ہے کہ اگر اس کا قصد بھی کرے تو اس قدر جی برا ہو کہ گویا ذبح کر ڈالا اور اس تبدیل کو تبدیل ذات یا فنائے حسی کہتے ہیں یعنی مثلا غصہ کا گویا وجود ہی نہ رہا بلکہ غصہ کے بجائے حلم پیدا ہوگیا - جب ایک زمانہ اس حالت پر گزر جاتا ہے اور جو اس میں حکمت خدا وندی تھی کہ بندہ خوگر ہوجاوے طاعت کا یعنی نفرت ہو جاوے معاصی سے دلچسپی ہوجاوے طاعت سے جب یہ مقصود حاصل ہوگیا تو بعض اوقات اس میں ایک تغیر ہوتا ہے وہ یہ کہ جن ملکات سیئہ کو مغلوب و مضمحل کیاگیا جب ان کی مقاومت بوجہ ملکات حسنہ کے راسخ ہوجانے کے آسان ہوگئی تو اب چاہتے ہیں کہ اپنے بندہ کا اجر بڑھانا اس واسطے اس وقت رفتار حکمت کی یہ ہوتی ہے کہ اول امور طبعیہ جو مغلوب ہوگئے