ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
روزانہ شیئا فشیئا کم ہوتا جاوے اور صحت شیئا فشیئا بڑھتی جاوے تو کیا علاج کو غیر مفید کہیں گے بلکہ قاعدہ تو یہ ہے کہ اگر یہ تفاوت مریض کو بھی محسوس نہ ہو صرف طبیب ہی کو اپنے قواعد طبیہ سے معلوم ہوتا ہو اور وہ اس کا حکم کرے تب بھی بھی مریض کو واجب ہوگا کہ تسلیم کرے اور حق تعالیٰ کا اولا اور اطبا ثانیا شکر گزار ہو ورنہ سخط حق اور کدورت اطباء کا قوی اندیشہ ہے - جو احیانا مفضی ہوجانا سلب نعمت کی طرف تحسبو نہ ھینا وھو عند اللہ عظیم وہ مریض سخت غلطی کر رہا ہے کہ اپنے مرض کے متعلق ممتنع البرء ہونے کی تشخیص کر رہا ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی یہ غلطی ہوگی کہ اس کو خدا تعالیٰ نے عزم وسامان کا معالجہ کا دیا ہو اور وہ اس کی ناقدری کر کے یہ تمنا کرے کہ کاش عزم ہی دل سے نکل جاتا کہ بے فکری دوسرے فضول یا مضر کاموں میں یکسوئی سے مشغولی ہوتی - مولانا اگر طلب اور حق تعالیٰ کے ساتھ زیادت تعلق محبوب ہے تو کیا دوسرا کام بھی اس پر ترجیح رکھتا ہے یالائمین کے کہنے سے صدمہ ہوسکتا ہے - اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ حق کی طلب ہی نہیں بلکہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مطلوب مطلقا تو مطلوب نہیں ہاں اگر وہ وعدہ وصال کرے تو کوشش کریں ورنہ گولی ماریں - سبحان اللہ کیسی اچھی طلب ہے مولانا ایک قحبہ عورت بھی اپنے طالب سے اس کو گوارا نہیں کرسکتی - چہ جائیکہ حضرت حق جل شانہ اب اس پر بطور تفریح کے کہتا ہوں کہ اگر بقول آپ کے آپ کی محرومی کو تسلیم کر لیا جاوے تو اس کی وجہ اب سمجھ لیجئے کہ یہ شان طلب ہے اگر یہ ہے تو اللہ کی امان - اصلاح کیجئے اور عنایتیں دیکھئے - آخر خط میں جو یہاں تشریف لانے کے متعلق معلق مشورہ طلب کیا ہے سو حضرت اس کا فیصلہ میں نہیں کرسکتا بلکہ آپ خود کر سکتے ہیں کیونکہ شرط نفع مناسبت اور کمال حسن ظن بحیث لا یشرک فیہ احدا ہے سو اس کا اندازہ ظاہر ہے کہ میں نہیں کر سکتا پھر جو امر مبنی ہے اس پر تعین مطلب اس کا فیصلہ میں کیسے کرسکتا ہوں - معاملہ کی صفائی دوسری چیز ہے اور معاصی دوسری ایک صاحب نے عاجزی ولجاجت سے معافی چاہی اس پر تحریر فرمایا کہ میں مسلمانوں