ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
پر مشورہ دینا بیوقوفی ہے - الزام ضرور آتا ہے - توجہ متعارف اصلاح کا مسنون طریقہ نہیں فرمایا کہ توجہ کے دو درجے ہیں ایک درجہ تو غیر اختیاری ہے وہ یہ دل چاہتا ہے کہ فلاں شخص میں ذوق وشوق محبت حق خوف وغیرہ پیدا ہوجاوے - اس کے واسطے دعاکردے اس کا تو کچھ مضائقہ نہیں - دوسرا درجہ کا متعارف مصطلحہ ہے وہ یہ کہ شیخ اپنے قلب کو سب خطرات سے خالی کر کے خاص توجہ کرتا ہے اس میں تصور بقصد توجہ کرتا ہے اس میں تصور بقصد تصرف ہوتا ہے یہ گوجائز ہے مگر ذوقا پسند نہیں - اور اس میں فاعل قوت برقیہ ہوتی ہے - جو انسان کے اندر ودیعت رکھی گئی ہے جیسا کہ زمین میں بھی یہ قوت برقیہ ہوتی بیت ہے سنا ہے کہ بے تار کے جو خبر پہنچتی ہے وہ اسی کے ذریعہ سے پہنچائی جاتی ہے - نظر لگنے میں بھی اسی کا اثر ہوتا ہے - مسمر یزم اور توجہ متعارف کا منشاء ماخذ ایک ہے - ایک بری جگی صرف ہوتا ہے اور ایک اچھی جگہ صرف کی جاتی ہے - صرف اتناہی فرق ہے - ایک یہ مشق پر موقوف ہے اس کئے مشق کی جاتی ہے کہ دوسروں پر نسبت کا القاء کریں گے - بعض مشائخ کے یہاں اس سے بہت کام لیا جاتا ہے مگر اس کا نفع باقی نہیں رہتا - طالب کیفیت کو نفع سمجھ کر اس کو کافی سمجھتا ہے اس لئے کام چھوڑ دیتا ہے - اس میں چند خلجان ہیں اول تو سنت میں منقول نہیں - دوسرے اس سے اکثر کو کام میں سستی ہونے لگتی ہے - پھر فرمایا کہ خود اثر پڑے دوسرے پر اس کا مضائقہ نہیں - باقی خود توجہ کرنے تو اس وقت قلب میں خدا کی طرف توجہ مطلق نہیں رہتی اگر یہ کہا جاوے کہ یوں تو معمولی بات چیت میں بھی توجہ الی اللہ نہیں ہوتی تو جواب یہ ہے کہ ہے یہ اس سے اشد ہے کیونکہ اس میں قلب قصد کالی کیا جاتا ہے اور خدا کی طرف سے توجہ ہٹانا غیرت کی بات معلوم ہوتی ہے حلقہ متعارف میں یہی ہوتا ہے بس مسنون طریقہ اصلاح کا وعظ نصیحت ہے - دعا ہے اور توجہ نام حق تعالیٰ کا حق ہے - مجبور ومختار کا فرق فرمایا کہ جو شخص مجبور ومختار فرق نہ کرے وہ کتے سے بھی زیادہ برتر ہے - کتے کے اگر لکڑی مارو تو بھی لکڑی پر حملہ نہیں کرتا ہے بلکہ لکڑی مارنے والے پر حملہ کرتا ہے -