ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
ہوتی ہیں وہ حق اللہ ہیں یا حق العبد اور ان سے سبکدوش بلا صاحب حق کے عفو ہو بھی سکتی ہے یا نہیں پھر فرمایا واقعی عزیزوں کے ساتھ جان کھپاویں مگر بیکار - ف : - اگر لوگ مناقشات خانگی کے وقت اس کی تقلید کریں یعنی ہر شخص معاملہ فیما بینہ و بین اللہ کی صفائی پر نظر رکھے تو مناقشات کی جڑ ہی کٹ جاوے اور عیشہ ؛ نقیہ اور حیاۃ طیبہ نصیب ہو اور اس کی عمدہ تدبیر یہ ہے کہ جیسے نماز روزہ کے مسائل علماء سے پوچھتے ہیں ایسے ہی جب خانگی جھگڑا ہو علما ء حقائق سے بصورت استغنا ء اس کو دریافت کرلیں جو امر اللہ وامرالرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو اس کو تسلیم کرلیں - ان شاء اللہ ایسا سیدھا راستہ نکلے گا کہ متنا قضین خوش رہیں گے اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہوگی اور اس وقت قدر معلوم ہوگی کہ شرعی قانون میں کیا کیا خوبیاں ہیں - غرضیکہ اس قصہ سے حضرت والا شدت تعلق مع اللہ وصفائی معاملہ معلوم ہوا - حفظ مراتب وصفائی معاملہ و غایت اعتناء بالا حکام الشرعیہ ایک بیدار مغز عہدہ دار حضرت والا کے خادم دو سوروپیہ تنخواہ پاتے تھے اور بوجہ غایت اتقاضا پوری تنخواہ اپنی والدہ کے ہاتھ میں لا کر دیتے تھے - جب یہ خود والدہ کے اتنے مطیع تھے تو گھر میں کسی کی کیا مجال تھی کہ ان کے سامنے دم مارے - سب انہیں گھر کا مالک ذی اختیار سمجھتے تھے حتیٰ کہ وہ اس رقم میں سے کچھ گھر میں خرچ کرتیں اور کچھ پس انداز کر کے اپنے دوسرے بیٹوں کو بہوؤں کو امداد ویتیں ان کی بی بی کو یہ انتظام پسند نہ ہو اور گھر میں بے لطفی پیدا ہونے لگی - حضرت والا کے سامنے یہ سب واقعات ظاہر کئے گئے تو حضرت والا نے کل اختیار بی بی کو دلوادیا اور خرچ والدہ کا کل ان کے ذمہ اور جیب خرچ دس روپیہ ماہوار مقرر کر دیا اور بھائی بہنوں بھا و جوں سب کو الگ کردیا - ف : - قرآن شریف میں ہے لینق ذوسعہ من سعۃ من سعتہ مقدور والے کو عورت کا نفقہ اپنے مقدور کے موافق دینا چاہئے - نیز حدیث میں ہے کہ عورت اس واسطے ہے کہ خاوند کے مال کی حفاظت کرے - حفاظت کرنا پہر دینے کا نام نہیں بلکہ بدنظمی سے بچانے کا نام ہے - اس سے صاف ظاہر ہے کہ گھر کا انتطام بی بی کے ہاتھ میں ہونا چاہئے اور بھاوج تو بالکل ہی غیر ہوتی ہے - بھائی کامال بھائی پر خرچ کرنا ولدہ کو جائز نہ تھا اس واسطے اس