ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
سیف وجذیہ نہ جذائے کفر ہیں نہ مقصود بالذات سیف وجزیہ راز قتل مرتد وحبس مرتدہ تبحر علم استحار قوانین 1 - فرمایا کہ قتات عورت اور اپاہج اور شیخ فانی اور اندھے کا قتل باوجود ان کے بقاء علی الکفر کے جائز نہیں اگر سیف اکراہ علی الاسلام کے لئے ہوتی تو ان کو ان کی حالت پر کیسے چھوڑا جاتا - 2 - جزیہ مشروع کیا گیا اگر سیف جزاء کفر ہوتی تو وباجود بقاء علی الکفر کے جزیہ کیسے مشروع ہوتا 3 - پھر جزیہ بھی سب کفار پر نہیں چنانچہ عورت پر نہیں پاہج اور نابینا پر نہیں رہبان پر نہیں اس سے معلوم ہوا کہ مثل سیف کے جزیہ بھی جزا ء کو کفر نہیں ورنہ سب کفار کو عام ہوتا جب جزیہ کہ سیف سے اخف ہے جزائے کفر نہیں تو سیف جو کہ اشد ہے کسی جزائے کفر ہوگی 4 - اگر کسی حالات وقت مسلمانوں کی مصلحت ہو تو کفارے صلح بلا شرط مال بھی جائز ہے 5 - اگر حالات وقتیہ مقتضی ہوں تو خود مال دے کر بھی صلح جائز ہے - ان اخیر کی دو دفعات سے معلوم ہوا کہ جزیہ جس طرح جزائے کفر نہیں جیسا دفعہ مبر 3 سے معلوم ہوا اسی طرح وہ مقصود بالذات بھی نہیں ورنہ صلح بلا مال یا بہ بذال مال جائز نہ ہوتی - پس سیف یا جزیہ نہ جزائے کفر ہیں نہ مقصود بالذات - حسب تصریح حکمائے امت ( کمافی الہدایہ وغیرہ ) سیف کی غرض اعزا دین و دفع فساد ہے اور جزیہ کی غرض یہ ہے کہ جب ہم ہر طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس ہماری نصرت بالنفس بھی کرتے ہیں مگر قانونا اس سے بھی سکبدوش کردیا اس لئے کم از کم ان کو کچھ مختصر ٹکیس ہی ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نصرت بالمال اس نصرت بالنفس کا من وجہ بدل ہوجاوے - یہ اغراض ہین سیف اور جزیہ کے اور یہی وجہ ہے کہ جب اعداء دین سے احتمال فساد کا نہیں رہتا - سیف مرتفع ہوجاتی ہے جس کے تحقیق کی ایک صورت قبول جڑیہ ہے ایک صورت صلح ہےا ور یہی وجہ ہے جو لوگ نصرت بالنفس پر جو کہ عقلا ان پر واجب تھی قادر نہیں اسن سے نصرت بالمال بھی معاف کردی گئی - رہا مرتد کا قتل اسلام کی طرف عود نہ کرنے حفاظت مین اپنی جان ومال صرف کرتے ہیں تو اس کا صلہ یہ تھا کہ وہ بھی حاجت کے وقت