ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
قلب کو اس کی تحصیل سے خالی کرے سوش اور فکر میں نہ پڑے ورنہ ہر وقت یہ فکر کہ جمعیت میسر ہو - خوس ایسی چیز ہے کہ اگر کچھ جمعیت نصیب بھی ہوئی تو یہی فکر کر کے یہ اپنے ہاتھ سے خود اس کو برباد کررہا ہے ایسا کرنا بالکل اس شعر کے مصداق ہے - یکے بر سر شاخ وبن مے برید خدا وند بستاں نگہ کرد و دیدی جس شاخ پر بیٹھا ہے اسی کو کاٹ رہا ہے اسی طرح یہ لوگ اپنے ہاتھوں قلب کو مشوش کر رہے ہیں - اور مشوش رہنے کی وجہ یہی ہے کہ غیر اخیتاری چیزوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں - جمعیت نہ ہونے سبب نماز میں بھی لوگوں کو وساوس آتے ہیں اور اکثر ان کی شکایت کیا کرتے ہیں اور دفع کی تدبیر پوچھا کرتے ہیں - میں کہا کرتا ہوں کہ اس طرف خیال ہی مت کرو التفات ہی مت کرو بلکہ ایسے موقع پر مفید صورت یہی ہے کہ اپنے کام میں لگے رہیں - ان وساوس کی طرف التفات ہی نہ کریں نہ جلبا نہ سلبا کیونکہ یہ التفات ایسا یے جیسے بجلی کے تار کو ہاتھ لگانا چاہے دفع کے واسطے ہوچاہے اپنی طرف کھینچے کے واسطے ہو - ہر صورت میں وہ پکڑ لیتا ہے اور میں کہتا ہوں وساوس کی فکر کیوں ہے قلب تو مثل ایک سڑک کے ہے اگر سڑک پر بھنگی چمار رہے ہیں اور آپ بھی اس پر سے گزر رہے ہیں تو آپ کا حرج ہی کیا ہے - اگر سڑک کے خالی ہونے کے انتظار میں آپ کھڑے رہیں تو کبھی بھی منزل مقصود تک نہ پہنچ سکیں گے البتہ نظام دکن کے لئے تو سڑک خالی بھی ہوسکتی ہے مگر ہر شخص تو نظام نہیں - افسوس اب تو ہر شخص نظام بننا چاہتا ہے کہ جیسے ان کے لئے سڑک روک دی جاتی ہے ایسے ہی ہماوے لئے بھی سب گذرنے والوں سے سڑک خالی کردی جائے - ارے بھائی پہلے نظام کے درجہ کے تو ہوجاؤ پھر یہ تمنا کرنا جو نظام کے درجہ کے ہوجاتے ہیں ان کے لئے سڑک بھی صاف کردی جاتی ہے لوگ وساوس کو حضور قلب میں مخل سمجھتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ خود حضور ہی مقصود نہیں صرف احضاد قلب مقصود ہے حضور ہو یا نہ ہو جب ہم اس کے شرعا مکلف ہی نہیں پھر شرع پر زیادت چہ معنی - بزہد و ورع کوش و صدق و صفا و لیکن میفزائے بر مصطفےٰ معلوم بھی ہے جیسے عقائد ہ واعمال کی زیادت علی الحدود بدعت ہے اسیے ہی احوال کی