ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
خواہش ہے تو میاں مزہ تومذی میں ہے - بیوی کو بغل میں لے کر بیٹھ جاؤ چومو چاٹو - مذی نکلے گی بہت مزہ آئے گا - اگر یہ کہا جائے کہ مزہ سے اعمال میں سہولت پیدا ہوجاتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ سہولت ہی کی کیوں طلب ہے - کیا انسان دنیا میں سہولتوں کے لئے بھیجا گیا ہے - اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں لقد خلقنا الانسان فی کبد ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا اور یہ طالب ہے سہولت کا - الغرض اس غم میں ہی نہ پڑتا چاہئے کیونکہ اس غم میں پڑنا کہ وہ حالت نہیں رہی - فلاں کیفت جاتی رہی قلب کا برباد کرنا - آخر یہ توجہ مخلوق کی طرف نہیں تو اور کس کی طرف ہے - اس میں عنوان کو اچھا اختیار کیا گیا ہے مگر نفس کا کید کہ لذت اور سہولت کا طالب ہے اور شیطان بھی اس طرف مشغول رکھ کر توجہ بحق سے غافل رکھنا چاہتا ہے - دوسرے جمعیت قلب کا ذمہ دار شیخ کس طرح ہوسکتا ہے کیونکہ وہ تو غیر اخیتار ہے اور غیر اختیارر چیز کی کون ذمہ داری لے - اچھا یہاں تو شیخ کو ذمہ دار سمجھ لیا اگر ناسور ہو جائے اور کسی طرح اچھا ہونے کی امید نہ ہو ہر وقت رستار ہے تب بھی جمعیت برباد ہوگی اور قلب ہر وقت مشوش رہے گا اس کا کیا علاج کروگے وہ تو نہ پیر کے بس کی نہ مرید کے بس کی دیکھنا یہ ہے کہ ہم مکلف کس بات کے ہیں اور مامور کس چیز کے ہیں - بڑی چیز تو حقیقت سے باخبر ہونا ہے اس کے بعد بہت سے فضول اور عبث امور سے نجات ہوجاتی ہے - حق تعالیٰ تو غایت شفقت کی وجہ سے فرماتے ہیں لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا یعنی اللہ تعالیٰ تکلیف میں دیتے مگر اس کی طاقت کی بقدر ؛ ایک خادم نے عرض کیا کہ حضرت ان اثار کے مناشی تو مطلوب ہیں - فرمایا کہ مناشی تو مطلوب نہیں نواشی مطلوب ہیں - منشا تو سب کا قوت شہویہ ہے جو فعل مباح کے ساتھ بھی متلعق ہوجاتی ہے - کسی فقیہ یا کسی محقق صوفی کے کلام العبادہ کسی درجہ میں مطلوب ہوسکتے ہیں مگر بالذات نہیں - ایک بار یک بات کہتا ہوں اس کی طرف کم التفاوت ہوتا ہے وہ یہ کہ اگر جمعیت قلب ہی کی طلب ہے تو اس کی فکر میں ہر وقت رہنا کہ جمعیت میسر ہو خود جمیعت کے بلکل منافی ہے جب یہ فکر رہی تو جمعیت کہاں رہی اور ان اس صورت سے قیامت تک جیعیت میسر ہوسکتی ہے جمعیت جبھی ہوسکتی ہے کہ