ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
میری نظر سے گزرا جس میں سید موصوف نے تحریر فرمایا ہے کہ نجدیوں کے دست تظلم سے بعض مزارات و موالد کی تخریب جو بعض اخباروں میں شائع کی گئی ہے اول تو پایہ ثبوت نہیں پہنچی - دوسرے مزارات و موالد مذکور اصلی نہیں بلکہ خلفائے نبی امیہ وعباسیہ کی تعمیر کردہ ہیں اور ان کو منہدم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں - تیسرے ان مقامات پر بدعاتی رسوم جاری ہیں جن کا انسداد ضروری ہے - چوتھے ان قبور میں مساجد کے ساتھ مماثلت ہے - اگر یہ توجیہ درست ہے تو کیا سرو کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا قبہ شریف اس حد میں نہیں آتا اور اگر آتا ہے تو کیا اس کے ساتھ ایسا سلوک جائز ہے - جوابا تحریر قبور پر قیاس مع الفارق ہے - حدیثوں میں منصوص ہے کہ آپ کا دفن کرنا موضع وفات ہی میں مانور بہ ہے چنانچہ مراتی الفلاح میں ہے و یکرہ الدفن فی البیوت لا ختصاص بالا نبیاء علیھم الصلوۃ والسلام اور موضع وفات ایک بیت تھا جو جدران اجازت ہے اور بناء علی اقبر سے جو نہی آئی وہ وہ جہاں بنا ء القبر ہو اور یہاں ایسا نہیں اب رہا اس کا بقاء یا ایفاء سوچونکہ بعد دفن کے خلفاء راشدین میں سے کسی نے اس بناء کے بقاء پر نکیر نہیں فرمایا ایک موقع پر استسقاء کی ضرورت شدیدہ صرف سقف میں ایک روشن دان کھولاگیا تھا جس سے اس بناء کے بقاء کا مشروع ہونا بھی معلوم ہوگیا اور ظاہر ہے کہ بقء ایسی اشیاء کا بدون اہتمام بقاء کے عادۃ ممکن نہیں اس لئے اہتمام بقاء کی مطلوبیت بھی ثابت ہوگئی اور چونکہ عمارت کا استحکام ادخل فی الابقاء ہے اس لئے اس کی مقصودیت بھی ثابت ہوگئی خصوص جب اس میں اور مصالح شرعیہ بھی ہو مثلا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مطہر کو اعداء دین سے محفوظ رکھنا کہ ان تسلط ( نعوذ باللہ منہ ) یقینا مفوت احترام ہے اور جسد مبارک کے احترام کا مقصود ہونا اجلی بدیہیات سے ہے اور اسی حکمتہ پر علماء اسرار نے شہادت جلیہ کے انتفاء کو ممبنی فرمایا ہے - اور مثلا آپ کی قبر معطر کو عشاق کی نظر مستور رکھنا کہ اس کا نظر آنا غلبہ عشق میں محتمل تھا - افضاء الیا اتجاوز عن الحدود الشرعیہ کو جیسا مرض وفات میں