ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
اس سے ملتے ہیں اور اس سے دوسرے متعلقین کی نسبت دریافت کرتے ہیں - اگر یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص تو مرگیا ہے تو کہتے ہیں افسوس وہ دوزخ میں گیا ہے ورنہ ہم کو ضرور ملتا اور اس سے ان کو غم ہوتا ہے غرض موت کے بعد مردے اس طرح باہم خوش ہو کر ملتے جلتے ہیں - لوگ سمجھتے ہیں کہ بس مرنے کے بعد الو کی طرح پڑے رہیں لا حول ولا قوۃ الا باللہ یہ بات نہیں یاد رکھو کہ قبر اس گڑھے کا نام نہیں ہے یہ تو صورت قبر ہے اور حقیقت میں قبر عالم برزخ کانام ہے وہں بس جمع ہوتے ہیں اور وہ پاکیزہ لوگوں کا مجمع ہے دنیا میں تو جدا بھی ہوسکتے ہیں جیسے کوئی ملازمت سے رخصت لے کر آئے اور اپنے لوگوں کے پاس یکجائی ختم نہیں ہوتی - وہاں تو رعیش ہی عیش ہے - بات یہ ہے کہ حقیقت نہ جاننے سے لوگوں کو موت سے وحشت ہوگئی ورنہ موت تو لقاء حبیب کے لئے ایک جسر یعنی پل ہے اس سے گزرے اور لقاء حبیب ہوگئی اور لقائے باری تعالیٰ سے کون سی چیز اچھی ہوگی - اس لئے اہل اللہ کو تو موت کا شوق ہوا ہے - حافظ شیرازی فرماتے ہیں - خرم آں روز کزیں منزل ویراں بردم راحت جان طلہم واز پئے جاناں بردم نذر کہ دم کہ اگر آید بسر ایں غم روزے تادر میکدہ شاداں وغزل خواں بردم ان سے پوچھئے کہ موت کیا چیز ہے - حدیث شریف میں ہے الموت تحفۃ المؤمن کہ موت مومن کا تحفہ ہے - نظام حیدر آباد اگر کسی کے پاس تحفہ بھجیں اور گھر والے رونے لگیں تو کیسے افسوس کی بات ہے - اور میری مراد اس غم سے غم مکتسب ہے نہ کہ غیر مکستب جدائی کا طبعی صدمہ جو بے اختیار ہوتا ہے - اس کا مضائقہ نہیں سوچ سوچ کر اس کو بڑھانا مذموم ہے - بلکہ ان مضامین کو سوچ کر اس کو گھٹانا چاہئے - دنیا مثال آخرت کے سامنے ماں کے رحم کی سی ہے جب بچہ ماں کے رحم میں رہتا ہے اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے اگر اس سے کہیں تو تنگ جگہ سے نکل اس سے فراغ جگہ موجود ہے تو وہ یقین نہ کرے گا اور جانے گا کہ یہی ہے جو کچھ ہے - مگر جب باہر آتا ہے تو ایک بڑا عالم دیکھتا ہے کہ رحم کو اس سے کچھ بھی نسبت نہیں - اور اب اگر اس سے کہا جاوے کہ رحم میں واپس جانا چاہتا ہے تو وہ کبھی منظور نہ کرے گا اسی طرح دنیا مبقابلہ آخرت کے بالکل تنگ