ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
معافی کی جو حقیقت صاحب شبہ نے سمجھی ہے اس معنی کر یعنی بعد معافی کے ناگواری نہ رہنا - یہ معافی مذکور فی السوال صرف صورۃ معافی ہے اسی لئے بعض حضرات کو شبہ ہوگیا کہ حق تعالیٰ کے حق معاف کرنے کا کسی کو حق نہیں مگر یہ واقع میں معافی نہیں بلکہ صلح ہے اور صلح سے کوئی امر مانع نہیں اور صلح جیسے بلا شرط ہوسکتی ہے اسی طرح شرط پر بھی ہوسکتی ہے جیسے یہاں یہ شرط مقرر کی جاتی ہے کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے البتہ صلح میں شرعا یہ قید ہے کہ مسلمانوں کے حق میں وہ مصلحت ہو اور یہاں مصلحت ہونا ظاہر ہے کہ فی الحال اسلام کا عزاز اور کفر کا اذلال ہے اور فی المال ایک منکر قبیح کفری کا انسداد ہے خود معاہد میں بھی اور امید ہے کہ دوسرے متجرئین میں بھی کہ اس منکر کا نتیجہ دیکھ کر بعضے عبرت پکڑیں گے اور بضعے مسلمانوں کی رواداری سے متاثر ہوں گے اور یہ تو قعات حکومت سے استغاثہ میں مظنوں بھی نہیں بلکہ مشکوک ہیں چنانچہ فضائے موجودہ اس کی شاہد ہے پھر اگر خدا نخواستہ استغاثہ میں کامیابی نہ ہوئی تو اس پر مفاسد یقینا مرتب ہوں گے ان کے انسداد پر مسلمانوں کو کوئی کافی قدرت نہیں ہمیشہ کے لئے ایسے لوگوں کی جرات بڑھ جاوے گی بلکہ ترقی کر کے کہ جاتا ہے کہ اگر کامیابی بھی ہوگئی تو ظاہر ہے کہ سزائے موت کا احتمال بھی نہیں صرف قید یا جرمانہ ہوسکتا ہے سو بہت سے مفسد ایسے ہیں کہ قید و جرمانہ کی ہرواہ بھی نہیں کرتے ان کو ایک نظیر ہاتھ آجاوے گی اور گو اس صلح کے بعد بھی ایسے واقعات محتمل ہیں مگر مفاسد کی قلت و ضعف و مشکوکیت اور کثرت و شدت ومظنونیت کا تفاوت ضرور قابل نظر و قابل عمل ہے - رہا یہ شبہ کہ معافی کا حق صرف سلطان اسلام کو ہے عامہ مسلمین کو نہیں سو شبہ میں جو دلیل بیان کی گئی ہے کہ یہ حق اللہ ہے اس کا مقتضا تو یہ ہے کہ سلطان کو بھی یہ حق نہیں کیونکہ سلطان حقوق اللہ کو معاف نہیں کرسکتا باقی اگر اس دلیل سے قطع نظر کر کے اور اس معافی کو صلح قرار دے کر یا معافی کی تفسیر عدم انتقام فی الدنیا قرار دیکر یہ حکم کیا جاوے تو اول تو اس حکم کے لئے ایسی دلیل کی حاجت ہے جو سلطان کے ساتھ خاص ہو سلطان اور عامہ مسلمیں میں مشرک نہ ہو دوسرے خود شریعت نے بہت سے احکام ضرورت کے وقت عامہ مسلمین کو قائم مقام سلطان کے ٹھہرایا ہے جیسے نصب