ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
انہیں وہ اجر متجزی ہو کر مساوے درجہ پہنچے گا جیسا کہ عدل کام مقتضا ہے - یا ہر ایک کو بلا تجزی پورا پورا اجر اس عمل کا ملے گا جیسا کہ اس فضل کا مقتضا ہے - جوابا تحریر فرمایا - فی شرح الصدور بتخرج الطرانی عن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا تصدق احدکم صدقۃ تطوعا فیجعلھا عن ابویہ فیکون لھما اجرھا ولا ینقص عن اجرہ شیئا یہ حدیث نص ہے اس میں کہ ثواب بخش دینے سے عامل کے پاس پورا ثواب رہتا ہے اور صیحح مسلم کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے - من سنہ سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من غیر ان ینقض من اجرہ شیئا او کما قال وجہ تائید ظاہر ہے کہ دوسرے شخص کی طرف تعدیہ ثواب سے بھی عامل کا ثواب کم نہیں ہوتا اتنا فرق ہے کہ حدیث طبرانی میں تعدیہ بالقصد ہے اور حدیث مسلم میں بلا قصد سویہ فرق حکم مقصود میں کچھ کوثر نہیں فقہیا نے بھی ان روایات کے مدلول کو بلایا تاویل تلقی بالقبول کیا ہے - کما فی رد المختار عن اتاتاع خانیہ عن المیحط لا فضل لمن یتصدق ان ینوی الجمیع االمومنین اولمومنات لانہا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شئی اور راز اس میں احقر کے ذوق میں یہ ہے کہ معافی میں توسیع اس قدر ہے کہ تعدیہ الی المحل الاخر سے بھی محل اول سے زوال نہیں ہوتا چنانچہ تعدیہ علوم و فیوض مشاہدہ ہے بخلاف ا اعیان کے کہ وہاں ایسا نہیں بلکہ ہبہ کرنے کے بعد شے موہوب اواہب کے پان نہیں رہتی وذکر العارف الرومی فی المثنوی بعض آثار التوسع المعنوی در معانی قسمت و اعداد نیست درمعانی تجزیہ و افراد نیست اور امر کہ متجیزی ہوکر پہنتا ہے یا بلا تجزی اس میں پہلے بھی کلام ہوا ہے کما فی در المختار و یو خعہ لواھدی الیا ربعۃ یصل لکان منھم ربعہ فلذا لواھدی الربع الوحد و ابقی الباقی لنفسہ ہ ملخصا قلت لکن سئل ابن حجر المکی عما لو قرہ لاھل المقبرۃ الفاتحہ ھل یقسم الثواب بینھم اویصل لکل منہم ثواب ذالک کاملا فاجاب بانہ افتیٰ جمع بالثانی اھو الائق بسعۃ الفضل ج 1 944 مگر کسی نے دلیل میں کویہ نص ذکر نہیں کی اور