ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
سے حضرت نے دریافت فرمایا کہ کس غرض سے آنا ہوا - انہوں نے جواب دیا کہ میں صرف ملنے آیا ہوں حضرت نے فرمایا کہ کچھ کہنا ہے تو کہوں - انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ کہنا نہیں ہے - پھر بعد ظہر حاضر ہو کر کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں - اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اس وقت میں نے صاف کہہ دیا تھا کہ کچھ اور کہنا ہے - تین مرتبہ پوچھا ہر دفعہ یہی کہا کہ کچھ نہیں کہنا ہے - میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک شخص جس سے خط و کتابت اور جان پہچان نہ ہو وہ اتنی دور سے محض محبت اور عشق میں بھاگا ہوا یہاں آوے اور اس شخص کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے - ان صاحب نے کہا کہ میں گاؤں کا آدمی ہوں فرمایا کہ یہ خوب سیکھا ہے کہ ہم گاؤں کے ہیں - کلکٹر کے سامنے کوئی ایسی بے ہودگی نہیں کرتا - ملا ہی مشق کے لئے رہ گئے ہیں - در اصل اہل دین کی وقعت نہیں ہے لوگوں کی قلب میں اس وجہ سے یہ بے پراوئی کی جاتی ہے کچہری میں جاکر سارے لکھنؤ اور دلی کے بن جاتے ہیں - پھر حضرت نے ایک خادم کے ذریعہ سے دریافت کرایا کہ کیا کہتے ہیں - انہوں نے نزر پیش کنے کو کہا - فرمایا کہ یہ طریقہ نزر پیش کرنے کا نہیں ہے پھر انہوں نے کہا مجھے پھر آنے کی اجازت دی جاوے - فرمایا کہ تین شرطوں سے اجازت دیتا ہوں - 1 - اپنی دینی حالت درست کرو اور یہ جو دھوتی باندھے ہوئے ہو اس کو آگ لگاؤ - 2 - جب تک پانچ یا چھ ماہ تک خط میرے پاس نہ بھیج لو تب تک میرے پاس نہ آؤ - 3 - نزر دینے کا کبھی ارادہ نہ کرنا اگر اس ارادے سے آوگے تو مجھ کو کلفت ہوگی اس پر وہ صاحب مصافحہ کر کے چلے گئے - پھر حضرت نے فرمایا کہ ایسا شوق تھا اور فقط دینا ہی مقصود تھا تو منی آرڈر کر کے بھیج دیتے - ان صاحب نے چلتے وقت یہ بھی کہا تھا کہ غلام سے خطاہوئی - فرمایا کہ غلام ایسی گستاخی کر ہی نہیں سکتا غلام نہیں ہو بلکہ بڑے آزاد آدمی ہو جو آکر ایسی تکلیف دی - یہ ایسی مثال ہے کہ رؤ سا اول نوکر کے تھپڑ لگاتے ہیں اور کچھ دیدتے ہیں کہ ذرا اس کا دل تھنڈا ہوجوے - اسی طرح اول آپ نے تکلیف دی پھر نزرانہ سے اس کا تدارک کرنا چاہا - ان لوگوں کو پیر زادوں نے بگاڑا ہے تھوڑی سی خطا ان کی بھی ہے کہ حکام دینوی کے ساتھ ایسامعاملہ میوں نہیں کرتے گو ہم اس قابل نہیں لیکن وہ