ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
اپنی اور اپنے دوسرے بیٹوں کو جو کافر دیدی اور ان کو نہ دی - اس پر نو مسلم نے بیڑ سڑوں وغیرہ سے رائے لی تو معلوم ہوا کہ ان کو قانونا مل سکتی ہے پھر انہوں نے علماء سے رجوع کیا چنانچہ حضرت والا کی خدمت میں بھی بغرض استمداد حاضر ہوئے حضرت والا نے فرمایا کہ قانون اسلام کی روسے اجازت نہیں کہ آپ زبردستی اپنے والد کی جائیداد میں حصہ لیں آپ کے والد کی چیز ہے انہیں اختیار ہے چاہئے جس کو دینں جس کو نہ دیں - آپ کو ملنے کی کوشش بالکل نہ کرنا چاہئے جس اللہ کو راضی کرنے کے لئے آپ نے دین حق یعنی اسلام قبول کیا اب آپ پرایا مال لے کر اسے ناراض کرنا چاہتے ہیں تو پھر کیا فائدہ ہوا - ہم اس کسی قسم کی امداد نہیں کر سکتے - اس پر ان نو مسلم نے عرض کیا کہ مل تو سکتی تھی - حضرت والا نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ میری بات آپ کے ذہن میں نہیں آئی ورنہ آپ یہ نہ کہتے کہ مل سکتی ہے - ایک چور چوری کرے اور اس کو پورا یقین ہو کہ میں چوری کے مال پر قابض ہوجاؤں گا تو کیا قانونا اس کے واسطے چوری جائز ہو سکتی ہے - ہر گز نہیں پس اسی طرح اس کو سمجھ لیجئے - بیر سٹروں وکیلوں نے ان نو مسلم سے کہہ دیا تھا کہ کافروں کامال جس طرح ہوسکے لینا جائز ہے - اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ اگر ڈیکتی جائز ہےتو یہ بھی جائز ہے - قانون اسلام میں یہ باکلک ڈیکتی ہے - کیا کوئی ڈاکہ ڈالنے کی اجازت دے سکتا ہے - پھر فرمایا کہ نئی روشنی کے لوگوں کا یہ اسلام ہے - ان کو احکام اسلام سے کچھ مطلب ہی نہیں - پھر ان نو مسلم سے فرمایا کہ آپ خدا پر بھروسہ کر کے اپنی قوت بازو سے کما لر کالیئے - ان کے مال پر نظر نہ کیجئے دنیا میں سب جائیداد والے ہیں - ہزار میں دو تین صاحب جائیداد ہوں گے ورنہ سب بیچارے غرباء ہی زیادہ ہیں - اللہ پاک سب کو کھانے پہنے کو دیتے ہیں - پھر ان نو مسلم صاحب نے کہا کہ میں آج رات کو یہاں قیام کر سکتا ہوں - حضرت والا نے فرمایا کہ میں آپ کے اس بے تکلفی کے سوال سے بہت خوش ہوا - آپ قیام تو سرائے میں فرماویں اور خرچ وغیرہ کی اگر کچھ کمی ہو تو وہ مجھ سے لیں - انہوں کیا کہ نہیں خرچ تو میرے پاس کوجود ہے اور یہ کہہ کر وہ نو مسلم حضرت کی خدمت سے چلے گئے - ان کے جانے کے بعد حضرت والا نے فرمایا کہ یہ صاحب بے باک تو بہت تھے - بے تکلف جرات کے ساتھ بولتے تھے - یہ ان کی بیبا کی کچھ شکول پیدا کرتی ہے اس لئے میں ان کے ساتھ بالکل بے مروتی سے