ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
ایک شخص عمر بھر جنتیوں کا کام کرتا ہے پھر اخیر میں ایک ایسا عمل کرتا ہے جو موجب نات ہوتا یے اس کا مطلب فرمایا کہ حدیث میں جو ایا ہے کہ ایک شخص عمر بھر جنتیوں کے عمل کرتا ہے پھر اخیر میں وہ ایک ایسا عمل کرتا ہے جو موجب نار ہوجاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر ایسا عمل کرتا ہے اور با اختیار خود ناری ہوجاتا ہے یہ نہیں کہ کسی غیر اختیاری عمل پر اس کو دوزخ میں بھیج دیا جاتا ہے یعنی ایک تو یہ کہ وہ بات جو موجب نار ہوتی ہوجاتی ہے وہ چھوٹی بات نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑی بات ہوتی ہے دوسرے یہ کہ وہ بات غیر اختیاری نہیں ہوتی تو پس معلوم ہوا کہ دوزخ بھی جانا اختیار میں ہے اور جنت میں بھی جانا اختیار میں ہے - قبر کی حقیقت فرمایا کہ اصطلاحی شریعت میں قبر گڑھے کو نہیں کہتے بلکہ عالم مثال کو کہتے ہیں - ( کیونکہ وہ مشابہ ہے اس عالم کے بھی یعنی باعتبار اخرت کے گویا وہ دنیا ہے اور باعتبار دنیا کے گویا کہ وہ آخرت ہے تو وہ سارا عالم ہے جیسا کہ باغ کا پھاٹک کہ بہ نسبت اندرونی حصہ باغ کے تو گویا وہ باغ نہیں ہے - لیکن بہ نسبت خارج حصہ باغ کے گویا کہ وہ باغ ہے - یا جیسے حوالات کہ بہ نسبت گھر کے تو وہ جیل خانہ ہے مگر بہ نسبت جیل خانہ کے گویا کہ وہ گھر ہے تو اللہ تعالیٰ نے عالم مثال کو دنیا کا بھی نمونہ بنایا ہے اور آخرت کا بھی نمونہ - تعویز کے اثر کی وجہ قوت خیالیہ ہے فرمایا کہ تعویز سے اچھا ہوجانا کچھ تعویز دینے والے کی بزرگی کی وجہ سے تھوڑا ہی ہوتا ہے بلکہ جس کی قوت خیالیہ قوی ہوتی ہے اس کے تعویز میں اثر زیادہ ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص بہت زیادہ قوت خیالیہ رکھتا ہو تو اس کے محض سوچنے ہی سے جاڑ بخار اتر جاتا ہے - چاہئے وہ کافر ہی ہو - کیونکہ یہ قوت تو اس میں بھی موجود ہے اور یہ مشق سے اور بڑھ جاتی ہے - بالخصوص بعض طبائع کو تو اس سے خاص مناسبت ہوتی ہے -