ملفوظات حکیم الامت جلد 23 - یونیکوڈ |
|
آپ کے سامنے لوح وقلم کے علوم بھی ہیچ ہیں آپ کی نسبت حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ولئن شئنا لنذھبن بالذی او حینا الیک جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہمارا عطیہ ہے ہم چاہیں تو ابھی سلب کرلیں ناز تو اس پر ہو جس کا کمال اپنے قبضہ کا ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تواضع کریں تو ہمیں کیا حق ہے ناز کا - اسی طرح استحقاق ثمرات استحقاق ثمرات کے ادعا کی حالت ہے - جیسے فرض کیجئے کہ آج ہی آم کا درخت لگایا اور کہنے لگے کہ پھل نہیں آیا اس سے صاف دعویٰ استحقاق ٹپکتا ہے - صاحب خدائے تعالیٰ سے نوکری کا معاملہ نہیں جو استحقاق اجرت کا ہو - غلامی کا تعلق ہے پھر دعوے استحقاق دعوے استحقاق کیسا - مثلا اگر آقا اپنے غلام سے کہے کہ پانی پلاؤ وہ کہے کہ کیا ملے گا بڑا نالائق ہے - گو کا کیڑا یہ سمجھے کہ میں گوکا کیڑا ہوں یہ کونسی خوبی کی بات ہے میرے دوستوں نے فتاویٰ کانام فتاویٰ اشرفیہ رکھ دیا تھا اس سے بہت شرم معلوم ہوتی ہے - آخر امداد الفتاویٰ کانام بدلا - پس اپنے رائے سے ضبط کرنا کیا معنی - مرید کو چاہئے کہ اپنے واردات کانام بدلا - پس اپنے ملفوظ اپنی رائے سے ضبط اولاد کچھ کماوے وہ ماں باپ کے سامنے رکھ دے کہ یہ کمایا ہے - ان افعال کی بدولت احوال سلب ہوجاتے ہیں - پھر فرمایا کہ جس وقت آدمی اپنے کو اچھا لگتا ہے اس وقت خداکے نزدیک مبغوض ہوتا ہے - اب ہر شخص سوچ لے کہ دن میں کتنی مرتبہ اس کی ایسی حالت ہوتی ہے بعد عصر حضرت والا نے اعلان فرمایا کہ فلاں مولوی صاحب سے کوئی بات چیت نہ کرے اور اگر کوئی کرے گا تو اس کے ساتھ بھی یہی برتاؤ کیا جاوے گا - پھر فرمایا کہ کوئی نئی بات میں نے نہیں کی بلکہ عین سنت کے موافق کیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا - اگر میں پچاس دن تک ایسا کروں تو بھی کچھ حرج نہیں ہے - پھر ان مولوی صاحب نے حضرت والا کی خدمت مبارک میں معافی کی درخواست کی مگر چونکہ بے ڈھنگے طور سے معافی چاہی گئی تھی اس لئے اس پر حضرت والا یہ سزا تجویز فرمائی کہ بعد مغرب روزانہ اس مضمون کا اعلان کیا کیجئے کہ صاحبو چونکہ میں فلاں قوم کا ہوں اس لئے کم حوصلگی کے سبب اپنے مربی کی عنایتوں پر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگا جس کی وجہ سے سزا میں