نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
وفیات کے عنوان سے تذکروں کا سلسلہ شروع کیا،اور بہت بزرگان دین جن کومولانا نے دیکھا اور برتا تھا،ان کا ذکر خیر المآثر کے صفحات میں کیا۔ اس کے بعد جب مولانا کی سرپرستی میںماہنامہ ضیاء الاسلام کا اجرا ہوا تو یہ تذکرے المآثر سے منتقل ہوکر ضیاء الاسلام کی زینت بننے لگے۔ قلم وقرطاس سے ایک گونہ بعد کے باوجود مولانا کو تذکرہ لکھنے سے شغف تھا،کوئی بھی صالح ہستی جس کو انہوں نے دیکھا اور برتا ہو،ان کا ذکر خیر ضرور کرتے اور بہت محبت واپنائیت کے ساتھ کرتے،تذکرہ لکھنے میں ان کے یہاں بڑے اور چھوٹے کی کوئی تفریق نہیں تھی،جیسا کہ عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی بڑے کی وفات پر سارے لوگ اپنا قلم لے کر دوڑپڑتے ہیں،اور ان کے ذکر سے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کے برعکس اگر نسبتاً کسی غیرمعروف آدمی کی وفات ہوجائے تو انہیں لوگوں کا قلم چھوٹا اور فرصت قلیل ہوجاتی ہے،اور ایسی سرد مہری برتتے ہیں جیسے اس بیچارے کی کوئی خدمت ہی نہیں ہے۔مولانا ہر صالح انسان ۔۔۔۔۔جس سے ان کی شناسائی ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔کا تذکرہ لکھتے تھے، چاہے وہ معروف یا غیر معروف یا پھر بالکل ہی گمنام ہو۔مولانا کی تذکروں کی کتاب ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘میں بہت سے ایسے لوگوں کا ذکر خیر ہے جس کو پڑھنے والا اول وآخران کو صرف انہیں صفحات پر دیکھتا ہے،اس کے علاوہ کہیں ان کا نام ونشان تک نہیں پاتا۔ اخیر میں تذکروں سے شغف کا ایک چشم دید نمونہ لکھ دینا مناسب معلوم ہورہا ہے۔ ڈائلیسیس شروع ہونے سے پہلے مولاناکوبہت زیادہ کمزوری اور نقاہت رہا کرتی تھی،کھانا پینا چھوٹ گیا تھا، مسلسل متلی کی شکایت رہا کرتی تھی،جس کی وجہ سے لکھنے کا کام معرض التوا میں پڑگیا،اور مہینوں یہ کیفیت رہی، اسی دوران کئی برگزیدہ ہستی اس دنیا سے رخصت ہوئیں،خصوصاً مولانا کے استاذ حضرت مولانا افضال صاحب جوہر قاسمی اور مولاناکے دیرینہ رفیق مولانا فاروق صاحب حیدرآبادی۔ان حضرات کے وفات کے صدمے نے مولانا کو اور بھی لاغر بنادیا،مولانا کی دیرینہ روایت کے مطابق ان کا تذکرہ لکھنے کا داعیہ شدت کے ساتھ پیدا ہوتا،مگر صورت حال یہ تھی لکھنا تو دور کی بات تھوڑی دیر بیٹھنا بھی مشکل تھا، پھر جب ڈائلیسیس شروع ہوئی اور روبصحت