نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اور صاحب سے بھی فرمایاکہ تم بھی ساتھ میں چلے جاؤ، گاؤں سے باہر نکل کر ان صاحب سے حبن بھائی نے کہاکہ آپ کہاں تکلیف کریں گے آپ یہیں رہئے میں اکیلا چلاجاؤںگا ،باہر سڑک پر آئے ایک بجے کا عالم ہر طرف سناٹا چھایا تھا، شہر جانے کے لئے اس گئی رات میں سواری کا تصور بھی نہیں ہوسکتاتھا، پیدل ہی چل کھڑے ہوئے ابھی چند قدم چلے تھے کہ نصرت غیبی آپہونچی، پیچھے سے ایک جیپ کی آواز سنی، جیپ ان کے پاس آکر ٹھہر گئی ،اس میں ایک فوجی افسر بیٹھا ہواتھا، اس نے ان سے پوچھاکہ مولانا کہاں جارہے ہیں ؟ انھوں نے بتایاکہ شہر جارہاہوں، اس نے انھیں گاڑی پر باصرار بیٹھالیا ،حبن بھائی اسے پہچانتے نہیںتھے ،شہر پہونچ کر خلد آباد تھانہ کے قریب حبن بھائی نے اترنا چاہا ،اس نے کہا آپ کو الہ آباد میں کس جگہ پہونچنا ہے؟چودھری صاحب نے حسن منزل بتایا اس نے کہا چلئے میں آپ کو وہیں چھوڑدوں گا، چنانچہ اس نے ان کو بالکل دروازہ پر لاکراتاردیا، جن صاحب کو خط دیناتھا انھیں خط دیکر زبانی جواب حاصل کرکے فوراً پلٹے، اب سوچ رہے تھے کہ یہاں سے کوئی سواری ملنی مشکل ہے ،پیدل ہی لوٹنا ہوگا، یہی سوچتے ہوئے بازار نخاس کہنہ تک پہونچے ،وہاں دیکھتے ہیں کہ ایک تانگہ والا یکہ وتنہا بازار میں آواز لگائے جارہاہے بمرولی ، بمرولی، انھیں بڑی حیرت ہوئی اس وقت اور بمرولی کی سواری موجود ،تانگہ پر بیٹھ گئے اور اس نے ہوا کی رفتارسے انھیں بمرولی پہونچا دیا، انھوں نے کرایہ دینا چاہا اس نے انکار کردیا، کہنے لگا مجھے تویہاں تک آناہی تھا میں سوچ رہاتھا کہ کوئی شخص مل جائے تولیتاجاؤں، آپ مل گئے ،کرایہ کی کوئی ضرورت نہیں یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا ،یہ سارا کام ایک گھنٹہ میں ہوگیا ۔حضرت کی برکت: مولانا عبدالرحمان صاحب جامی بیان کرتے ہیں کہ حضرت والا کا قیام جب فتح پور میں تھا تو مجلس بعد نماز ظہر ہوتی تھی، اطراف کے لوگ مجلس میں آیا کرتے تھے، مئو سے قاری ریاست علی صاحب مرحوم اور ان کے رفقاء بھی ساتھ ہواکرتے تھے ،مجلس کے بعد عصر کی نماز پڑھ کر یہ لوگ فوراً لپکے ہوئے تیزی سے کوپاگنج کی جانب روانہ ہوجاتے، وہاں سے فورا مئو کے لئے ٹرین مل جاتی تھی اور یہ حضرات مغرب بعد مئو پہونچ جاتے، اس وقت کوپاسے مئو تک سواریوں کی سہولت نہ تھی، ٹرین نہ ملنے کی صورت میں آدمی کو یکہ کی سواری اختیار کرنی پڑتی جو تکلیف دہ بھی ہوتی تھی اور