نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اس طرح کے معاملات میں لڑکوں کو دخل دینے اوربولنے کی گنجائش نہ تھی ، میں ایک طرف بیٹھا سن رہاتھا،میں سوچ رہاتھا کہ معاملہ میں اصل میں ہوں ، اور علم دین کی تکمیل کرکے فارغ التحصیل ہوچکا ہوں ، اور بارات میں بہت سی غیر شرعی رسمیں ہوتی ہیں ، لیکن معاشرہ کی ریت یہ ہے کہ صاحبِ معاملہ کچھ نہ بولے ، اسی لئے نانا کا خطاب میری طرف سرے سے ہے ہی نہیں ، میں سوچ رہا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ پھر دل نے فیصلہ کیا جو کچھ بھی ہو ، مجھے خاموش نہیں رہنا چاہئے ، میں نے سر جھکاکر ڈرتے ڈرتے نانا سے پوچھا کس کی بارات کی بات ہورہی ہے؟ نانا جھٹک کر بولے تمہاری بارات کی ! میں نے اپنے اسی ڈر کے لہجے میں سر جھکائے عرض کیا کہ آپ لوگوں نے مجھے علم دین پڑھایا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ دین پر عمل کیا جائے۔ میں فقہ اور حدیث دونوں طرح کی کتابیں پڑھ چکا ہوں ، ان میں نکاح کا تذکرہ تو ہے مگر بارات کا ذکر کہیں نہیں ہے، اس کا کوئی تعلق شریعت وسنت سے نہیں ہے ، اس لئے بارات میں مَیں نہیں جاؤں گا ، اس کے بعد آپ کو اختیار ہے ۔ میری معروضات سن کر ابتداء ً تو نانا کو جلال آیا مگر دیندار تھے ، ٹھنڈے ہوگئے ، والد صاحب بھی خاموش رہ گئے، مشورہ بکھر گیا۔ دوسرے دن سسرال پیغام بھیج دیا گیا کہ محض رخصتی ہوگی ، بارات نہیں جائے گی ، میرے خسر بھی دیندار تھے ، انھوں نے اصرار نہیں کیا ، بلکہ اور دونوں باراتیں بھی انھوں نے منسوخ کردیں ۔ تاریخ مقرر ہ پر میری اہلیہ میرے گھر آگئی ، اور اس وقت کی جو معاشرتی رسمیں تھیں ، انھیں نظر انداز کردیا گیا۔حب نبویﷺ: رسول اﷲ اکی محبت مَیں اپنے قلب وجگر میں ابتداء شعور سے پاتا تھا ، جب سے حروف پڑھنے کی کچھ شُد بُد ہوئی ہے ، میں نے سیرتِ پاک کا جو بھی چھوٹا بڑا رسالہ پایا، بڑے ذوق وشوق سے پڑھا ۔ مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور کی طالب علمی میں سیرۃ النبی (علامہ شبلی نعمانی وسید سلیمان ندوی) بطور تلاوت کے پڑھا کرتا تھا ، گھر پر عبادت کی یکسوئی حاصل ہوئی ، تو جوشِ محبت میں بہت اضافہ ہوا۔ میں اپنے سفر نامۂ حج ’’ بطواف کعبہ رفتم ‘‘ میں لکھ چکا ہوں کہ بالکل بچپن میں جبکہ میری عمر ۹؍۱۰؍ سال رہی ہوگی ، میں نے حضور اکرم ا کو خواب میں دیکھا تھا۔