نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
گھس کر اس طرح سوگیا جیسے پوری رات بستر پر ہی رہاہوں، والد صاحب نماز پڑھ کر آئے میری تو نماز اس وقت تک معاف تھی ،جب سوکر اٹھا تو انھوںنے خفگی کے لہجے میں سوال کیاکہ رات کہاں تھے؟ جھوٹ کی عادت نہ تھی ،نہ اس کا یاراتھا ،سچ سچ بتادیا،وہ خفا ہونے لگے، میں نے سوچا کہ ان کی خفگی دورکرنے کی صورت بس یہی ہے کہ انھیں جلسہ کا حال اور اپنی یادداشت کا کمال بتادوں ،میں نے تقریرکی دلآویزی اور یادداشت کو بتایا ،تو فرمانے لگے اچھا سناؤ ،میں نے من وعن پوری تقریر دہرادی ،وہ دلچسپی سے سنتے رہے پھر میری خطا معاف ہوگئی۔غیبی مدد: امتحان کے زمانے میںتسہیل الکافیہ کی مددسے کافیہ کا تکرارآسان ہوگیا،لیکن تکرار جب حال کی بحث تک پہونچا اورمیں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو ایسا لگا،جیسے میں نے یہ بحث پڑھی ہی نہیں، مطالعہ کرتے کرتے دماغ تھک گیا،جس طرح تھکا بیل ہل جوتتا جوتتا بیٹھ جاتاہے ، اور ہزار تدبیروںکے بعد بھی نہیں اٹھتا،بعینہٖ وہی حال میرا تھا۔دماغ تھک کر بیٹھ گیاتھا ،اس کے سامنے حروف آتے تھے مگر کچھ سمجھ میں نہیں آرہاتھا ،ظہر کی نمازکے بعد سب طلبہ کے درمیان اس بحث کو سمجھاناتھا،جب میرا دماغ تھک گیا تو میں کتاب لے کر ایک ایسی مسجد میں چلاگیا ،جواہل حدیث کی مسجد کہلاتی تھی مگر اس میں نمازباجماعت کا انتظام واہتمام نہ تھا اورمشہور تھا کہ اس میں جن بہت رہتے ہیں ہلکی گرمی کا موسم تھا، میں اکیلا تھا کتاب دیکھنے لگا مگر دماغ کا اب بھی وہی حال تھا میں نے جھنجھلا کرکتاب رکھ دی ،اورلیٹ گیا،تھوڑی دیر میں نیندآگئی جیسے نیند آئی،خواب میں دیکھتاہوںکہ ایک بزرگ سفید ریش خوبصورت عمامہ باندھ کر تشریف لائے دل میں یہ بات جمی کہ یہ صاحبِ کا فیہ علامہ ابن حاجب ہیں ، مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اب ان سے یہ بحث براہ راست پڑھوںگا ،خواب میں یہ خبر کہاں کہ یہ خواب ہے وہ توآنکھ کھلنے پر کھلتا ہے کہ یہ خواب تھا۔ انھوںنے آتے ہی فرمایاکہ کون سا مسئلہ تمھیں سمجھ میں نہیں آتا؟ میں نے کتاب کھول کرحال کی بحث سامنے رکھ دی، انھوںنے اس کی نہایت واضح اورمفصل تقریر کی، پورامسئلہ ذہن نشین ہوگیا اتنی خوشی ہوئی کہ میں اسے بیان نہیں کرسکتا، دوخوشی، ایک تو مسئلہ حل ہونے کی، اوردوسری صاحب کافیہ کی شاگردی کی ! وہ صاحب تو سمجھا کر چلے گئے ، اورخوشی کی بیتابی میں میری آنکھ کھل گئی، اب سمجھ میں