نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
پاس چلاجائوں گا،مولانا بنوری نے اس روز بھی وہ تذکرہ چھیڑا اور میرے اخراجات وغیرہ معلوم کئے،میں وہاں سے اٹھ کر جب مفتی صاحب کی خدمت میں پہونچا تو چونکہ بات بالکل تازہ تھی،اس لئے میں نے مفتی صاحب سے مولانا بنوری کی گفتگو کا تذکرہ کیا،مفتی صاحب نے فرمایا کہ مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے ایک رسالہ’’مناصب الحرام‘‘کے بارے میں لکھا ہے،مل جائے توپڑھ لینا،ویسے بھائی!وکالت کے پیشے سے نفرت کرنے کی ضرورت نہیں،اور نہ اس سے دل برداشتہ ہونے کی،بلکہ اگر کوئی غریب آدمی آئے جو تمہاری فیس نہ دے سکے تو اس کی مدد کرنا کار ثواب ہے،کیوںکہ آج کل تو ایسا گورکھ دھندا ہے کہ بغیر وکیل کے کام ہی نہیں چلتا،البتہ مقدمہ لیتے وقت سچ اور جھوٹ،حق اور ناحق کے درمیان امتیاز کرلیا کرو،دونوں فریقوں میں سے ایک فریق سچا ہوگا،دعا کیا کرو کہ سچا فریق تمہارے پاس آئے،پھر اس کی مدد کرو،فیس ہی کیوں نہ لو مگر نیت کا ثواب ملے گا کہ ایک مظلوم کی مدد کررہے ہو،پھر فرمایا کہ اگر کوئی لغزش ہوجائے تو اللہ سے استغفار کرلیاکرو،اور نعم البدل کی دعا مانگتے رہوں،جب اللہ چاہیں گے اور کوئی بہتر ذریعۂ معاش پیدا فرمادیں گے،لیکن معاش کے متبادل انتظام کے بغیر پیشۂ وکالت ترک کرنے کی ضرورت نہیں کہ تنگی میں مبتلا ہوجائو ۔الحمدللہ حضرت کی تقریر سے دل پر جو گھبراہٹ طاری تھی،دور ہوگئی۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۹۹۶)امر بالمعروف کا حکیمانہ انداز : ایک بار مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی کا جلال آباد یا شاملی سے گزرہوا،ایک مسجد ویران پڑی تھی،وہاں نماز کے لئے تشریف لاکر پانی کھینچا ،وضو کیا،مسجد میں جھاڑو دی،بعد میں ایک شخص سے پوچھا کہ یہاں کوئی نمازی نہیں ہے؟اس نے کہا جی!سامنے خان صاحب کا مکان ہے جو شرابی اور رنڈی باز ہیں،اگر وہ نماز پڑھنے لگیں تو یہاں اور بھی دو چار نمازی ہوجائیں،آپ ان خاں صاحب کے پاس تشریف لے گئے،تو رنڈی پاس بیٹھی ہوئی تھی،اور نشہ میں مست تھے، آپ نے خاں صاحب سے فرمایا کہ بھائی خان صاحب!اگر تم نماز پڑھ لیاکرو تو دو چار آدمی اور جمع ہوجایا کریں،اور مسجد آباد ہوجائے گی،خاں صاحب نے کہا کہ میرے سے وضو نہیں ہوتی،اور نہ یہ دو بری عادتیں چھوٹتی ہیں،آپ نے فرمایا کہ بے وضو ہی پڑھ لیا کرو،اور شراب بھی پی لیا کرو،اس پر