نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کا یہی حکم ہے ۔ جب باندہ شہر پہونچے اور گاڑی سے اترے تو رکشہ والوں نے ایک دوسرے کو اشارہ کیا کہ ہتھورا والے بابا ہیں،بہت سے رکشہ والے دوڑ پڑے اور انھوں نے بھی کسی طرح کرایہ لینا منظور نہیں کیا ۔عبادت کا ذوق: ساری رات سفر کیاہے ، سڑک پر گاڑی کے ہچکولوں سے ہڈیاں چورچور ہیں ، تکان سے بے حال ہیں نیند کی وجہ سے آنکھیں بند ہوئی جاتی ہیں ، منزل پر پہونچتے ہیں تو تہجد کا وقت ہے ، رفقاء سب خوابگاہ ڈھونڈ ھ رہے ہیں ، بستروں پر گررہے ہیں، اور حضرت لوٹاتلاش کررہے ہیں ، وضو کررہے ہیں ، اور پھرنماز میں اس طرح مشغول ہوجاتے ہیں، جیسے نہ انھوں نے سفر کیا ہے ، نہ انھیں کوئی تکان ہے ۔ ایک بار ایک مدرسہ کے جلسہ میں ۱۲؍بجے رات تک شریک رہے ، وہاں سے اٹھے تو ایک صاحب اپنے گھر لے گئے ، وہاں سے گاڑی پر بیٹھے تودو بجے رات کو دوسرے صاحب اپنے گھر لے گئے ، حضرت کی دلداری ہے کہ ہر ایک کے گھر بے تکلف جارہے ہیں ، پھر اٹھے تو ڈیڑھ گھنٹے گاڑی پرچل کر ایک قصبے میں پہونچے ، سارا قصبہ چشم براہ تھا،لوگ انتظار اور شوق میں رات بھر سوئے نہیں تھے ، ایک قافلہ قصبے سے ایک کلومیٹر پہلے منتظر تھا ، حضرت کی گاڑی گزرگئی ، وہ لوگ دوڑ پڑے ، اور بھی قافلے جگہ جگہ راستہ دیکھ رہے تھے ، حضرت قصبے کے اندر پہونچے تو پورا قصبہ مصافحہ کے لئے ٹوٹ پڑا، کہا گیا کہ مصافحہ بعد میں ہوگا ۔ ابھی حضرت کو تھوڑی دیر آرام کرنے دیں۔ لوگ رک گئے ، حضرت کمرے کے اندر تشریف لے گئے ، باہر عشاق کا ہجوم تھا ۔ حضرت نے ایک رفیقِ سفر سے کہا کہ مجھے تھوڑی مہلت مل جاتی ، رفیق سفر نے کہا کہ حضرت آنکھ بند کرکے لیٹ جائیں، آگے میں سمجھا لوں گا ، اتنا سنتے ہی حضرت بلاتامل اور بلا تاخیر لیٹ گئے ، اب اس رفیق نے سمجھا کہ حضرت سو گئے ہیں ۔لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ اب دروازہ چھوڑ دیں ، ہجوم ختم کردیں لوگ ہٹ گئے اور حضرت واقعۃً نیند سے سوگئے ، مگر شاید ۱۵؍ منٹ گزرا ہو کہ حضرت تیزی سے اٹھ کھڑے ہوئے ، وہ رفیق سفر ہکا بکا ہوگئے ، حضرت آرام کیجئے ، مگر اب آرام کہاں ، وضو کیا ، اور ہاتھ باندھ کر نماز میں مشغول ہوگئے ۔ ٭٭٭٭٭٭