نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اپنے اہل وعیال کو لے کر کہیں دور سے آیا ہے ، اور کہیں آگے جانا ہے ، پیسے ختم ہوگئے ہیں ، آپ نے اس کی پوری بات توجہ سے سنی ، اورا س پر کوئی ردوقدح اور جرح نہیں کی ، جیسا کہ عام طور سے ایسے اجنبی سائلوں سے کی جاتی ہے ، آپ اس کی باتیں سن کر اٹھے ، اور اندر جاکر ایک اچھی خاصی رقم لے کر تشریف لائے اور قدرے جھک کر دونوں ہاتھ سے نہایت تعظیم سے اسے پیش کی ، اور لجاجت سے فرمایاکہ یہ میری طرف سے آپ قبول کرلیں ، اﷲ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائیں ، یہ فرماکر اسے رخصت کیا ۔واﷲ عجب شان ہے ان مردان خدا کی : مولانا نفیس اکبر صاحب ،حضرت اقدس کے قدیم ترین تلامذہ میں ایک نہایت بزرگ ہستی ہیں ، وہ شروع ہی سے حضرت کے ساتھ ہیں ، حضرت کے مدرسہ کے ابتدائی طالب علم اور پھر فراغت کے بعد وہیں مدرس ہیں ، انھوں نے مدرسہ کا ہر دور دیکھا ہے ، معلوم ہے کہ مدرسہ اپنے آغاز میں چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا ، یہ جھونپڑیاں خود حضرت اقدس اور طلبہ مل کر بناتے تھے ، بعد میں جب طلبہ بڑھے تو ضرورت ہوئی کہ کوئی مستقل تعمیر مدرسے کی ہو ۔ ابتداء ً تجویز ہوئی کہ چھ کمرے بنا لئے جائیں ۔ حضرت نے مولانا نفیس اکبر صاحب کو جو اس وقت مدرس ہوچکے تھے اور ان کے ساتھ دو اور صاحبوں کو کان پور بھیجا ، وہاں حضرت مفتی محمود الحسن صاحب ؒ اس وقت جامع العلوم میں مفتی اور شیخ الحدیث تھے ، یہ لوگ حضرت مفتی صاحب ؒ کی خدمت میں پہونچے ، مدعا بیان کیا کہ مدرسے میں چھ کمرے بننے تجویز ہوئے ہیں ، ایک کمرہ ہزارروپئے میںتیار ہوگا حضرت کوئی تحریر عطا فرمادیں اور اہل خیر کو اشارہ فرمادیں تو چھ ہزار روپئے جمع ہوجائیں ۔ حضرت مفتی صاحب ؒ نے سن کر فرمایا کہ یہیں ٹھہرو ، کھانا کھاؤپھر بتاؤں گا ، ان لوگوں نے دوپہر کا کھانا کھایا ، حضرت مفتی صاحب ؒ نے فرمایا کہ مولوی صدیق صاحب سے کہو کہ چندے کی فکر نہ کریں ، یہ کہہ کر انھوں نے چھ ہزار روپئے نکالے اور ان حضرات کو دے کر واپس فرمادیا ۔ اس مقدس اور بابرکت عطیہ سے ابتدائی چھ ابتدائی کمرے تعمیر ہوئے ، اسی میں کا ایک کمرہ اخیر تک حضرت کی قیام گاہ رہا ۔تحقیق ومطالعہ کی عمر قصبہ بِھتری ضلع غازی پور میں جمعیۃ علماء کی ایک کانفرنس تھی ، اس میں قاضی اطہر