نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
حوالے کردو،اور آئندہ سے خوب کان کھول کرسن لو کہ کسی طالب علم کے ساتھ کچھ بھی تیز یا ترش برتائو کیا تو کان پکڑ کر مطبخ سے نکال دوں گا،ہاں کسی طالب علم سے کوئی غلطی ہوتو مجھ سے کہو،میں تحقیق کے بعد جو سزا مناسب سمجھوںگا ،دوںگا،مگر دوسرے کو نہ دیکھ سکوں گا کہ وہ انہیں ترچھی نظروں سے بھی دیکھے،چونکہ پہلی غلطی ہے اس لئے اس وقت تنبیہ پر اکتفا کرتا ہوں،آئندہ اس کا پورا لحاظ رکھا جائے۔(ارواح ثلاثہ۔ص۳۱۱)کند ذہن پر شفقت : ایک مرتبہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ کے یہاں درس ہورہا تھا کہ کسی مقام پر عطارہ کا لفظ آیا،چونکہ قرأت کرنے والا لفظ کے معنی سمجھے ہوئے اور مادۂ اشتقاق جانے ہوئے تھا،اس لئے بے تکان پڑھتا چلاگیا،برابر میں ایک طالب علم ولایتی علاقہ سرحد کا رہنے والا ۔۔۔بیٹھا ہوا تھا،جو اس لفظ کے معنی نہ سمجھا،اس نے بے چارے قرأت کنندہ ہم جماعت طالب علم کو زور کہنی ماری اور کہا،ٹھہرو،ہم نہیں سمجھا،اور حضرت کی طرف مخاطب ہوکر پوچھا کہ ’’عطارہ معنی چہ؟‘‘آپ نے فرمایا’’زوجہ عطر فروشندہ‘‘۔حضرت کی زبان سے جواب ختم ہونا تھا کہ قاری نے پھر قرأت شروع کردی،بے چارہ ولایتی اب بھی نہیں سمجھا،دوبارہ پھر کہنی ماری اور حضرت سے دریافت کیا ’’مولانا!عطارہ معنی چہ؟ہم نہیں سمجھا‘‘آپ نے فرمایا ’’عطر فروش کی بیوی‘‘پھر قاری نے قرأت شروع کی،تیسری مرتبہ ولایتی نے پھر کہنی ماری اور تیز نظرسے دیکھ کر کہا’’ٹھہرو،ہم نہیں سمجھا عطارہ کا معنی‘‘اس مرتبہ امام ربانی نے اونچی آواز سے جواب دیا’’عطر بیچنے والا کا جورو‘‘اس وقت ولایتی خوش ہوا اور کہا ’’ہاں سمجھا،ہاں بھائی چلو‘‘۔(تذکرۃ الرشید۔ج۱۔ص۹۰)بچوں پر شفقت : حضرت امام ربانی (مولانا رشید احمد گنگوہی)کو گوارا نہ تھا کہ بچوں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ سختی کا برتائو کیاجائے،اگر کسی صغیر سن بچہ کے پٹنے یا کراہنے کی آواز آپ کے کان میں پڑتی تو آپ بے چین ہوجاتے،اور کبھی باپ کے اپنے لڑکے کو زیادہ مارنے کی شکایت آپ سنتے تو آپ کو صدمہ ہوتا،اور مناسب الفاظ میں باپ کو نصیحت فرماتے۔ مولوی محمد اسماعیل صاحب گنگوہی نے اپنے لڑکے محمد جلیل کو ایک مرتبہ مارا،ان کی