نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
مجھے اپنا ایک غریب دوست یاد آیا، مجھے بڑی غیرت آئی کہ میں گاجر کا حلوا کھاؤں اور میرا دوست نانِ شبینہ کا محتاج ہو ، میں نے سارا حلوا فروخت کردیا ، اس کی قیمت میں مجھے پچیس روپئے حاصل ہوئے ، میں نے وہ پوری رقم بھیج دی ، اور طبیعت نے آسودگی اور راحت محسوس کی۔خدا کی رزاقی پر ایمان کی پختگی: میسور میں ملازمت کے وقت میں نے اپنے دل میں یہ بات طے کی تھی کہ دینی خدمت جو بھی میسر آئے گی اسے بطور خدمت اور عبادت کے پورا کروں گا ، اسے میں ذریعۂ معاش نہ سمجھوں گا ۔ طالب علمی کے زمانے سے یہ بات دل میں راسخ تھی کہ روزی حق تعالیٰ دیں گے ، میرے ذمہ دین کی خدمت ہے ، روزی کا وعدہ رازق مطلق نے کررکھا ہے ، مجھے یاد ہے کہ جب میں عربی سوم کا طالب علم تھا ، تو مبارکپور کی مضافاتی آبادی اَملومیں اپنے والد کے ایک دوست مولانا محمد ادریس آزادؔ رحمانی علیہ الرحمہ کی زیارت وملاقات کے لئے حاضر ہوا تھا ۔ مولانا اہل حدیث عالم تھے ، شاعری کا ذوق رکھتے تھے ، اسی مناسبت سے والد صاحب سے دوستی تھی ۔ مجھے معلوم ہوا کہ مولانا اپنے وطن املو تشریف لائے ہیں تو ان سے ملاقات کاشوق ہوا ، میں حاضر ہوا ، تو بہت اخلاق سے ملے ، بڑی شفقت فرمائی ، تعلیم کے متعلق پوچھتے رہے ، مشورہ دیتے رہے ، آخر میں ایک بات یہ پوچھ لی کہ پڑھنے کے بعد کیا کروگے؟ میں نے عرض کیا ،دین کی خدمت کروں گا ، فرمایا ہاں ، یہ جذبہ تو اچھا ہے مگرمعاش کے لئے میں پوچھ رہا ہوں ۔ میں نے عرض کیا ، معاش کا وعدہ حق تعالیٰ نے کیا ہے ، اس پر ذرا پھیکے ہوکر وہ بولے ، اس وقت یہ کہہ رہے ہو مگر بعد میں اسی بات پر کیا تم قائم رہ سکوگے ؟ میں خاموش رہ گیا ، مگر میرے دل میں وہی بات جمی رہی جو میں نے عرض کی تھی۔ پھر فارغ ہونے کے بعد جن دنوں میں گھر پر مقیم تھا ، کبھی کبھی والد صاحب سے گفتگو ہوتی تو اس میں معاش اور ذریعۂ معاش کا بھی تذکرہ آتا ، میں کہتا کہ روزی رساں اﷲ تعالیٰ ہیں، اس کے لئے محنت کرنی کیا ضرور ہے؟تو والد صاحب فرماتے کہ یہ تو صحیح ہے، مگر ذریعۂ معاش تو آدمی کو تلاش کرنا ہی پڑتا ہے ، میں عرض کرتا کہ جو خدا معاش دے گا ، کیا وہ ذریعۂ معاش نہ دے گا، اور یہ واقعہ ہے کہ میرے دل کو معاش اور ذریعۂ معاش کی فکر نے کبھی نہیں دبایا۔ انھیں دنوں میں