نمونے کے انسان |
زرگان د |
نہیں پڑھاتے،آج انہوں نے خود نماز پڑھانے کی پیش کش کیسے کی؟بہر کیف نماز استسقاء میاں صاحب کی امامت میں شروع ہوئی،میاں صاحب کے عقیدت مندوں کے دل میں بار بار خیال پیدا ہورہا تھا کہ آج بارش ضرور ہوجائے گی،شاید میاں صاحب نے کشف کے ذریعہ معلوم کرکے یہ تبدیلی کی ہوگی،لیکن آج بھی دھوپ اسی شدت کے ساتھ چمکتی رہی اور بادل کا دوردور بھی نام و نشان نہ تھا،مجبور ہوکر پورا مجمع شکستہ دل مغموم واپس ہوا۔ والد صاحب نے اس خلاف عادت پراستفسار کیا کہ آپ تو کبھی نماز پنج گانہ میں بھی امامت نہیں فرماتے،آج یہ کیا ماجرا تھا؟فرمایا کہ میرا مقصداس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ جو عالم دین دو روز سے نماز پڑھا رہے ہیں لوگوں کو ان پر ہی بدگمانی نہ ہو،اس لئے میں نے سوچا کہ میں بھی اس شریک ہوجائوں، کیوںکہ مجھے اندازہ تھا کہ بارش اس وقت ہونا مقدر نہیں،کسی عالم یا مقدس ہستی کا اس میں کیا قصور ہے؟اب اگر بدنامی ہونی ہے تو تنہا ایک عالم کی نہ ہوگی۔(ارواح ثلاثہ۔ ص ۴۷ ۳ )عجیب تجارت : حضرت والد صاحب (مفتی محمد شفیع صاحب)نے دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا سا تجارتی کتب خانہ بھی قائم فرمایا تھا،اس میںجہاں کثرت عیال کے ساتھ مدرسہ کی تنخواہ کے ناکافی ہونے کو دخل تھا وہاں ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے لکھے ہوئی رسائل کی اشاعت آسان ہوجائے،لیکن تجارت ایک مستقل فن ہے،ابتدا میں حضرت والد صاحب کو اس کا تجربہ نہیں تھا،چنانچہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں دہلی گیا،تو وہاں کسی کتب خانے میں ایک نئی حمائل شریف شائع ہوئی تھی،میں اس کے نسخے بڑی تعداد میں خرید کر دیوبند لایا،خیال یہ تھا کہ یہ نسخے مجھے خاصے کم ہدیے پرمل گئے ہیں،حضرت میاں صاحب نے یہ سن کر احقر کی تعریف فرمائی ، اور ساتھ ہی فرمائش کی کہ یہ تمام نسخے کچھ نفع رکھ کر مجھ کو ہدیہ کردو،چنانچہ میں نے حضرت میاں صاحب کے حکم کی تعمیل کی اور تمام نسخے ان کو دیدئیے،اور حضرت نے ان کا ہدیہ بھی احقر کو جلد ہی عطا فرمادیا،میں مطمئن تھا کہ میں نے بہت اچھا معاملہ کیا ہے،جسے حضرت میاں صاحب جیسے پختہ کار بزرگ نے بھی پسند فرمایا ہے،بات آئی گئی،ہوگئی،لیکن عرصۂ دراز کے بعد ایک روز میں حضرت میاں صاحب کے کتب خانے میں پہونچا تو دیکھا کہ اسی حمائل شریف کے تمام نسخے ایک