نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
عندا لناس محبوبیت : میں نے حضرت کو شہروں میں بھی دیکھا ، قصبات میں بھی دیکھا ، چھوٹے چھوٹے دیہاتوںمیں بھی دیکھا ، لوگ پروانہ وار ٹوٹے پڑتے تھے جیسے دلوں میں کسی نے پھونک دیا ہو کہ یہ شخصیت گو کہ تمہارے درمیان ہے مگر یہ کچھ اور ہی شے ہے ۔ یہ مقبولیت مسلمانوں میں تو تھی ہی ان سے آگے بڑھ کر ہندوؤں میں بھی بڑی محبوبیت تھی ۔ باندہ میں سنا کہ ہندو انھیں چھوٹا بھگوان کہتے تھے ، میں نے یہ منظر خود دیکھا ہے کہ بڑے بڑے ذی وجاہت ہندو حاضر خدمت ہیں اور جتنی دیر وہ ہیں ہاتھ جوڑے ہوئے ہیں ، حضرت منع فرماتے تو وہ ہاتھ نیچے کرلیتے مگر جوڑے ہی رہتے ۔ شروع میں مدرسہ سے دوتین کلومیٹر کچا راستہ تھا ، ایک بار ہمارے قافلے کو جس میں حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جامیؔعلیہ الرحمہ تھے ، رُخصت کرنے کے لئے حضرت باندہ تک کے قصد سے نکلے ۔ قبیل مغرب کا وقت تھا سب لوگ پیدل چل رہے تھے ، طلبہ کا ہجوم بھی ساتھ تھا، ایک غیر مسلم بوڑھا بیل گاڑی پر چنوں کے پودوں کا ڈھیر لاد کر لارہا تھا ،بیل چل رہے تھے اور وہ بوڑھا اس ڈھیر کے اوپر لیٹا ہوا تھا ۔ بیل گاڑی جب آگے بڑھی تو اسے احساس ہوا کہ حضرت ہیں تو بے اختیار اسی ڈھیر پر ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور جب تک حضرت دور نہیں نکل گئے اسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑا رہا ۔ ہم لوگ جب سڑک کے قریب پہونچے ابھی دوتین فرلانگ کا فاصلہ باقی تھا کہ ایک بس مین روڈ سے باندہ کی طرف جاتے ہوئی نظر آئی ، ڈرائیور کو احساس ہوا کہ حضرت ہیں ، اس نے بس کو روک دیا اور منتظر رہا ، حضرت نے فرمایا کہ سڑک پر پہونچ کر مغرب کی نماز اداکی جائے گی، حضرت نے اشارہ کیا کہ تم چلے جاؤ مگر وہ کھڑا رہا پھر جب حضرت کا اشارہ مسلسل اس نے دیکھا اور اسے سمجھ میں آگیا کہ یہ لوگ کچھ دیر ٹھہر کر نماز پڑھیں گے تو وہ روانہ ہوا ، جیسے ہی ہم لوگ سڑک پر پہونچے ایک دوسری بس آکر رکی ، اسے بھی حضرت نے رُخصت کیا ، نماز اطمینان سے پڑھی گئی ، نماز سے فارغ ہونے کے تھوڑی دیر بعد تیسری بس آئی وہ بھی ٹھہری ، حضرت اس بس میں سوار ہوئے،بس چلی، کنڈکٹر حضرت کے قریب آکر کھڑا ہوگیا ، حضرت اس کو کرایہ دینے لگے کل سات آدمی تھے ، اس نے ہاتھ جوڑ کر بڑی لجاجت سے کہا صرف آپ کا آشیرواد چاہئے ، حضرت نے بہت اصرار کیا مگر اس نے کسی قیمت پر کرایہ لینا منظور نہیں کیا ، اس نے یہ بھی کہا کہ گاڑی کے مالک