نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کا باپ !پھر حضرت ابوہریرہ ص کا ذکر کیا ، اخیر میں میرے سرپر ہاتھ رکھا اورپوچھا کہ تمھاراکیانام ہے،عرض کیا اعجازاحمد، فرمایا تم احمد کے معجزے ہو، ہم لوگوں کو بہت خوشی ہوئی، میں اوربلال کچھ دنوںتک اس کا مذاکرہ کرتے اورخوش ہوتے رہے۔ ابوہریرہ اس وقت بہت چھوٹا تھا اسے شاید یہ بات یاد بھی نہ ہوگی۔ اللہ کاکرنا دیکھئے،حق تعالیٰ نے ان بزرگ کی بات بلال کے حق میں سن لی ،بلوغ کے پہلے سے بلال نے مسجد میں اذان دینی شروع کی اورآج تک وہ اذان دے رہاہے، نہایت مستعدی سے بلاناغہ پابندی وقت کے ساتھ۔ ابوہریرہ کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اچھی دینی صلاحیت سے نوازا ،بہت متقی پابند نماز، صاحب اوقات ،دینی معلومات بھی خوب ہیں نہایت متواضع اورخدمت گزار! تیسراآدمی منتظر ہے کہ اس کے حق میں بھی ان بزرگ کا قول مقبول ہو، بظاہر تو آثار نہیں نظرآتے باقی اللہ کیلئے کچھ مشکل نہیں۔بچپن کی دعا: بچپن کی ایک عجیب بات ذکر کروں۔گھرمیں دینداری کا چرچا تو بحمداللہ تھاہی،دینی کتابوں کا مطالعہ بھی خوب ہوتارہتا ،بھائی کے انتقال کے بعد والدصاحب کی گفتگو سے یہ بات ذہن میں خوب پختہ ہوگئی تھی کہ جب کوئی بچہ مرجاتاہے تو وہ سیدھا بے کھٹکے جنت میں جاتاہے اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ،اوربالغ ہونے کے بعد طرح طرح کے گناہوں میں گھر جاتاہے توجنت میں اس کاابتدائی داخلہ مشتبہ ہوجاتاہے، اس بات نے دل میں اشتیاق پیداکیا کہ بچپن میں ہی موت واقع ہوجائے اس کیلئے دعائیں کیاکرتا،جب بیمارہوتاتوخوش ہوتاکہ شاید اسی میں مرجاؤں، اور سیدھا جنت میں پہونچ جاؤں،بیماری میں جنت کا تصور خوب رہتا،باربار بیمار پڑنے اوردعائیں کرنے کے بعد بھی جب مو ت نہیں آئی تو سوچاکہ کسی خاص وقت میں دعا کرنی چاہئے ۔ شب برأت آئی،استاذ محترم مولانا عبدالستار صاحب نے تقریر میں اس کی فضیلت بیان کی کہ اس رات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، مولانااحمدسعیدصاحب دہلوی کی کتاب ’’پردہ کی باتیں‘‘ میں بھی شب برأت کی برکت پڑھی تھی ،مغرب کے بعد میں نے اپنے بھائی محمد بلال سے اس کا ذکر کیا کہ