نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
بچہ اسی علاقے کا تھا، بہت چھوٹا تھا تو اس کی ماں کا انتقال ہوگیا، باپ نے دوسرا نکاح کرلیا، یہ لڑکا ماں سے محروم ، دوسرے نکاح کے بعد باپ کی نظر شفقت سے بھی تقریباً محروم ہوگیا، اس بیچارے کو اتنی تکلیف ہونے لگی کہ پاس پڑوس والوں کو بھی رحم آنے لگا، محلہ کی ایک بوڑھی خاتون اس بچے کو لے کر اور کچھ دوسرے بچوں کو لے کر حضرت مولانا کی خدمت میں دعا کے لئے آئی، آپ نے اور بچوں کی طرف توجہ فرمائی، مگر اصل بچہ جو خاص طور سے مستحق دعا تھا اس کی طرف توجہ نہیں فرمائی، اس بڑھیا نے کئی مرتبہ مولانا کو متوجہ کیا لیکن حضرت اپنے حال پر رہے، اس نے ایک مرتبہ بہت زور دے کر کچھ کہا تو آپ نے فرمایا کہ تم اس کے لئے کیا کہتی ہو، ایک وقت ایسا آئے گا کہ ساری دنیا اس کی بات سنے گی ،وہ وہاں سے لوٹ آئی۔ اب اس بچے کا حال سنئے! یہ کچھ بڑا ہوا تو گھر سے بھاگ نکلا، اﷲ جانے کہاں کہاں ٹھوکریں کھائیں، پھر وہ لکھنؤ پہونچ گیا، ندوہ میں داخلہ لیا، اس کی ذہانت و ذکاوت کے جوہر وہاں کھلنے لگے، وہاں سے فراغت حاصل کی، پھر دہلی آگیا، یہاں کچھ عرصے کے بعد وہ ریڈیو اسٹیشن کے عربی شعبہ سے وابستہ ہوگیا، ایک بار عربی میں تقریر نشر کرنے کے لئے کھڑا ہوا، اور زبان سے یہ مضمون ادا کیا کہ اس وقت میری آواز دنیا کے ہر گوشے میں سنی جارہی ہے، اتنا کہنا تھا کہ برسوں پرانی، بچپن کی یاد آئی،وہ ان بزرگ کی خدمت میں خاتون کا لے جانا، دعا کی خصوصی درخواست کرنا، ان بزرگ کا متوجہ نہ ہونا، خاتون کا اصرار کرنا، حضرت کا فرمانا کہ اس کی آواز ساری دنیا سنے گی،یہ سارا منظر نگاہوں میں گھوم گیا، یہ کل کا بچہ اور آج کا ندوی عالم و فاضل از خود رفتہ ہوگیا، ہوش بجا نہ رہے، اپنے نائب کو تقریر نشر کرنے کا حکم دے کر فوراً گھر لوٹ آئے، طبیعت پر اثر تھا، پہلا کام یہ کیا کہ سفر کرکے وہ خانقاہ میں آئے، کئی دن قیام کیا، خانقاہ میں اب جو چھوٹا سا مکتب چل رہا ہے اس کے سرپرست وہی ہیں، یہ ہیں عالم وفاضل، عربی کی متعدد کتابوں کے مصنف مولانا عبدالحلیم صاحب ندوی پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی نئی دہلی۔وفات: حضرت مولانا سید عبداللہ صاحب کاآخری ایام میں تو حال یہ ہوگیا تھا کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی طاقت نہ رہی بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے، بلکہ یہ بھی نوبت آئی کہ لیٹ کر نماز پڑھنے