نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
انسانی احوال کے ا عتبار سے دوسرے اذکار واوراد کی بھی بڑی اہمیت ہے، قرآن کریم کے حق تلاوت کی ادائیگی کا راستہ بھی انہیں اورادواذکار سے ہموار ہوتا ہے، اس لئے محض تلاوت کی بات ہے تو بظاہربہت خوشنما ،مگر افادیت مکمل نہ ہوگی ، جب تک دوسرے اوراد واذکار معمول میںنہ ہوں حضرت کے جواب میں قرآن کی عظمت بھی پورے طور پر نمایاں اور دوسرے اذکار کی اہمیت بھی واضح ہے۔کتابوں سے شغف: حضرت مولانا محمد فاروق صاحب علم ومطالعہ کے بڑے شیدائی تھے ، جو بھی اچھی اور معیاری کتاب ملتی ، از اول تا آخر غور سے پڑھتے ، اس سلسلے میں انھیں محققین کی کتابوں سے زیادہ لگاؤ تھا ۔ مالی حالت بہت بہتر نہ تھی ، اسلئے بیش قیمت کتابیں خرید نہیں سکتے تھے ، تو اس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ جن کتابوں کا ہونا اپنے پاس وہ ضروری سمجھتے تھے ، انھیں محنت کرکے پوری نقل کرلیتے تھے ۔ امام شاطبی کی ’’الاعتصام‘‘ کی انھیں بڑی ضرورت تھی ، اس وقت یہ کتاب عام نہیں ہوئی تھی اس کی دو جلدیں ہیں ، اور ہر جلد متوسط ضخامت کی ہے ۔ ایک صاحب کے یہاں سے مطالعہ کیلئے عاریۃً مانگ کر لائے ، اور وقت کچھ زیادہ متعین کرالیا ، اور اسی فرصت میں اول سے آخر تک پوری کتاب نقل کرلی ۔ مولانا کا خط بڑا پاکیزہ تھا ، اور بڑا کمال یہ تھا کہ ان سے کتابت کی غلطی بالکل نہیں ہوتی تھی ، کسی مشغولیت میں ہوں ، حالات چاہے کتنا ہی خیال ودماغ کو منتشر کررہے ہوں ، مگر قلم ہاتھ میں لے لیتے تو بالکل یکسوئی ہوجاتی ، اور بے تکلف لکھتے چلے جاتے ، میں نے کئی ضخیم کتابیں ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی دیکھی ہیں ۔ بہت صحیح اور صاف تحریر ! دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ، طاش کبریٰ زادہ کی ضخیم کتاب جو کئی جلدوں میں ہے ،’’مفتاح دارالسعادہ‘‘ اس کا مکمل ترجمہ کرکے خوش خط لکھ رکھا ہے ۔ ان کی محنت اور استقامت قابلِ رشک ہے ، اور حافظہ کی قوت کا یہ حال تھا کہ کتابوں کی عبارتوں کی عبارتیں ازبر تھیں ، اور اس طرح بے تکان سناتے کہ کہیں تشابہ اور التباس کی نوبت نہ آتی ۔ الہ آباد میں ایک صاحب بہت علم دوست تھے ، ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب مرحوم ، ان کے یہاں جمعہ کے روز شہر کے بعض اہل علم حضرات جمع ہوتے تھے ، اور کسی علمی موضوع پر گفتگو ہوتی تھی ،