نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
سو بیس روپئے لاکر میرے ہاتھ پر رکھ دئیے اور فرمایا کہ دس روپئے ماہانہ قسط سے لوٹا دینا۔ اس قرض کے دوران ایک قسط کے وقت تنگ دستی ایسی ہوگئی کہ دس روپئے کی گنجائش نہیں تھی،لیکن شرمندگی سے بچنے اور وعدہ پورا کرنے کی خاطر بہزار دقت خدمت میں حاضر ہوکر قسط پیش کی،اور جب حضرت نے قبول فرمالی تو پھر آہستہ سے اپنی حالت بھی بیان کردی،حضرت نے مسکراتے ہوئے روپئے واپس فرمادئیے،اور خوش ہوکر فرمایا کہ آپ نے بالکل صحیح طریقہ اختیار کیا،آدمی کو چاہئے کہ وعدہ پورا کرے اور بعد میں اپنی حاجت کا اظہار کردے،لیکن ایسا کبھی نہ کرے کہ قسط ہی غائب کردے۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۹۳۳)دوہری شفقت : ایک دفعہ ہم کسی کام کے سلسلے میں صبح سے بڑی دیر تک گھومتے رہے،کوئی گیارہ بجے کے قریب فریزر روڈ(حالیہ شاہراہ لیاقت)پر جب نظامی دواخانہ کے قریب پہونچے تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ اچھا اب آپ جائیں،اب آپ کا دفتر یہاں سے قریب ہے،سلام کرکے دونوں جدا ہوئے،چند ہی قدم فاصلہ ہوا تھا کہ حضرت نے مجھے آواز دی،میں بھی حضرت کو صدر کی جانب جاتے دیکھ ہی رہا تھا،جلدی جلدی آگے بڑھا،حضرت بھی میری جانب تشریف لارہے تھے حضرت نے اپنی جیب سے رقم نکالی اور میرے ہاتھ میں تھمادی اور فرمایا کہ اس کو قبول کرلیجئے،اس کے بعد اپنی منز ل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ تھا کہ صبح سے تمام سفر کے دوران بس کے ٹکٹ میں نے ہی لئے تھے،حضرت میری مالی حالت سے واقف تھے،اس وقت تو اس خیال سے کہ منع کرنے پر اس کا دل دکھے گا،خاموش رہے لیکن اختتام سفر پر کافی رقم سے نوازکر عمر بھر کے لئے نقش کردیا،خدمت کا موقع بھی دیا،اور پھر اپنے کرم سے سرفراز بھی فرمادیا۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر۔ج۲۔ص۹۳۳)وکالت کا پیشہ : مولانا محمد یوسف بنوری بعض اوقات مجھے وکالت ترک کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے کہ وکالت چھوڑ کر اپنا پورا وقت تصنیف وتالیف کے کام میں صرف کروں،ایک دن میں نے یہ پروگرام بنایا کہ صبح آٹھ بجے مولانا بنوری کے وہاں جاکر پھر وہیں سے مفتی (شفیع)صاحب کے