نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
ہورہا تھا،مہتمم صاحب نے خط کا جواب دے کر اس کو رخصت کردیا،مولانا دیوبندی نے مہتمم صاحب سے پوچھا کہ اس خط لانے والے کو کھانا بھی کھلایا تھا،مہتمم صاحب نے کہا کہ حضرت کھانا تو ؎ ہجوم اشغال میں نہیں کھلایا،پیسے دیدئیے ہیں کہ کچھ لے کرکھا لے گا،فرمایا کافی نہیں،غریب آدمی پیسے نہیں خرچ کرتا،گھر کوباندھ کر لے جاتا ہے،اور لوگوں سے پوچھا کہ وہ شخص کس راستہ سے گیا ہے؟پتہ لگا کہ فلاں سڑک کو گیا ہے،مولانا ادھر ہی تشریف لے گئے اور اس کو واپس کرکے کھانا کھلا کر پھر رخصت کیا۔(ارواح ثلاثہ۔ص۳۰۳)طلبہ کی قدر ومنزلت : مولانا عاشق الٰہی میرٹھی’’تذکرۃ الخلیل ‘‘میں لکھتے ہیں کہ: ’’ایک مرتبہ میںمدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں حاضر تھا کہ ایک طالب علم کی آپ کے پاس محرر مطبخ کے متعلق شکایت آئی،جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ طلبہ کو کھانا تقسیم کررہے تھے،اس طالب علم کو جلی روٹی ملی،جس کے لینے سے اس نے انکار کیا،محرر مطبخ نے سختی سے جواب دیا کہ اب خنے بہک گئے کہ جلی اور موٹی سوجھنے لگی،لینا ہوتو لو ورنہ جائو،مجھ سے نہیں ہوسکتا کہ اس کو اپنے حصہ میں لگالوں،یا جو روٹی جلے اس کا تاوان دیا کروں۔حضرت(مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری)یہ خبر سنتے ہی مطبخ میں آئے اور غصہ کی وجہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا ،میں ساتھ تھا،اور دیکھ رہا تھا کہ حضرت کے بدن اور آواز دونوں میں رعشہ ہے،محرر مطبخ سے آپ نے واقعہ پوچھا،اور جب انہوں نے خود اس توقع پر صحیح صحیح بیان کردیا کہ طلبہ کا نظام قائم رکھنے کے لئے محرر کی طرفداری کی جائے تو اس وقت آپ فرمایا کہ منشی جی!سنو مدرسہ انہیں پردیسی بے وطن مسکین طلبہ کے دم سے قائم ہے،اورتم اور میں انہیں کے طفیل روٹیاں کھارہے ہیں،اگر یہ نہ ہوں تو نہ مطبخ کی ضرورت ہے نہ تمہاری حاجت،مدرسین بھی فارغ اور مدرسہ بھی خالی،یہ مسکین سہی محتاج سہی،مگر مجھے اور تمہیں دونوں کو روٹیاں دے رہے ہیں،مجھے صرف یہ بتادو کہ تمہیں ترش کلام کرنے کا حق کیا تھا؟اور تم کون تھے یہ کہنے والے کہ ’’خنے بہک‘‘گئے ہیں،ان کا باپ بنا ہوا ابھی زندہ ہوں،تم کو تو مطبخ سے جزو تنخواہ بناکر دو خوراک ملتی ہے،آخر کیا وجہ تھی کہ جلی ہوئی روٹی تم اپنی خوراک میں نہ لگا سکے؟اور مہمان رسول کو مجبور کیا کہ یا تو یہی جلی ہوئی کھائے ورنہ فاقہ کرے،اب تو اپنی خوراک اس کے