نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
پھوپھی نے حضرت سے جا شکایت کی،اگلے دن مولوی اسماعیل صاحب حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا:مولوی اسماعیل ادھر آئو،مولوی اسماعیل صاحب ہنسنے لگے،کیوںکہ سمجھ گئے تھے کہ کل لڑکے کے مارنے کی چغلی کھائی گئی ہے،حضرت نے فرمایا ہنستے کیا ہو؟ادھر آئو،اور مولوی یحییٰ تم بھی آئو،(مولوی یحییٰ بھی اپنے صاحبزادہ زکریا کو بہت مارتے تھے)اس کے بعد چارپائی پر بیٹھ کر فرمایا کہ مولوی یحییٰ!میں تم سے مسئلہ پوچھتا ہوں کہ لڑکے کوکس قدر مارنا چاہئے؟نصیحت کے لئے اتنا ہی کافی تھا،اب مولوی یحییٰ صاحب جواب دیں تو کیا دیں؟حضرت نے کئی مرتبہ اس فقرہ کو دہرایا،آخر فرمایا کہ مولوی اسماعیل تم عہد کرو کہ جلیل کے مارنے میں سختی نے کروںگا،اگر عہد نہیں کرتے تو میں جلیل کو گوالیار نہ جانے دوںگا،میں اس کو خود پڑھائوں گا،کیوںکہ یہ میرا دو وجہ سے عزیز ہے،اول تمہاری وجہ سے کہ تم میرے عزیز ہو،اور دوسرے بھائی عبدالمجید کا نواسہ ہے،آخر مولوی اسماعیل نے وعدہ کیا کہ حضرت ان شاء اللہ اب ایسا نہ ہوگا۔صاحبزادہ حکیم مولانا مسعود احمد صاحب بھی اس وقت حاضر تھے،کہنے لگے کہ حضرت میں بھی تو سعید کو مارتا ہوں،آپ نے فرمایا کہ تمہارا مارنا بھی سعید کو،مجھے معلوم ہے،لڑکے کو اس قدر نہ مارناچاہئے،ایک دو طمانچہ مارنے کا مضائقہ نہیں۔(تذکرۃ الرشید۔ج۲۔ص۴۰)اصلاح بین المسلمین: محسن خان بیان کرتے ہیں رمضان المبارک کے دن تھے،آپ(سید احمد شہید)نے ایک روز فرمایا کہ آج روزہ ٹھنڈے کنویں پر کھولیں گے،جو تکیے سے ایک کوس کے فاصلے پر تھا، سب تیار رہیں،جب روانگی کا سامان اور افطاری کی تیاری ہوگئی تو رائے بریلی سے اطلاع آئی کہ فلاں فلاں مسلمانوں کے درمیان جنگ درپیش ہے،اور عجب نہیں کہ تلوار وبندوق کی نوبت آجائے آپ نے یہ سن کر محسن خان ،شیخ لطافت،معمور خان،ابراہیم خان،امام خان وغیرہ دس آدمیوںسے فرمایا کہ ہمیں معلوم ہے کہ تم کو اس وقت پیاس کی شدت ہوگی،اور اب یہ شدت بڑھتی ہی جائے گی،لیکن کیا کیا جائے کہ بغیر ان مشقتوں کے برداشت کئے ہوئے مراتب کمال تک پہونچنا میسر نہیں آتا، چونکہ دو مسلمانوں کے درمیان کشت وخون کی نوبت آگئی ہے،تم دوڑ کر جائو،اور فریقین کے درمیان اپنے کو ڈال دو،اور کہو کہ جو دوسرے کے قتل کے درپے ہے وہ پہلے ہم کو قتل کردے،