نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
بات چلتے چلتے ان کے شیخ حضرت مولاناعبدالواحد صاحب مدظلہ تک پہونچی،ان کا ذکر آنا تھا کہ آواز گلوگیر ہوگئی، بہت دل گرفتہ ہوئے،کہنے لگے کہ ہر سال حضرت حج کے لئے آیا کرتے تھے،اس سال علالت کی وجہ سے نہیں آسکے،اگر آئے ہوئے تو ان سے ملاقات ہوتی،ان کی مجلس میں بیٹھتے،اور تم بھی ان سے ملاقات کرلیتے،ان سے دعا کرالیتے۔ گزشتہ سطروں میں آپ نے پڑھا کہ مولاناکو بچپن ہی میں جب وہ حرف شناسی کے منزل میں تھے،تذکرہ صالحین سے عشق ہوگیا تھا،عمر کی منزلیں طے کرنے کے ساتھ یہ عشق بھی دم بدم عروج پذیر رہا،ان کی زندگی کا کوئی حصہ اس کار خیر سے خالی نہیں رہا،حرف شناسی کی منزل سے گزر کر جب انہوں نے قلم اٹھایا تو اس سلسلہ میں مزید توسع پیداہوئی،جو تذکرہ ابھی تک زبان اور دل ودماغ تک محدود تھے، اب قلم کے راستے دل سے ٹپک کر صفحات پر مرتسم ہونے لگے۔ مولانا نے جو سب سے پہلامفصل کتابی صورت میں تذکرہ لکھا وہ مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ کا تدکرہ ہے،جو حیات مصلح الامت کے نام سے ۱۴۰۶ھ میں شائع ہوا،اس کے بعد تو بہت سے صلحا کے تذکرے مولانا قلم سے نکلے،بعض مفصل اور بعض کتابچے کی صورت میں۔بیشتر تذکرے مضامین کی صورت میں لکھے گئے اور کسی رسالہ کی زینت بنے۔ مولانا تفصیلی تذکروں میں سرفہرست حیات مصلح الامت ہے،اس کے علاوہ ’’تذکرہ شیخ ہالیجوی‘‘عارف باللہ حضرت مولانا حماداللہ صاحب ہالیجوی کی سوانح ۔’’حیات سراج الامت‘‘ حضرت مولانا سراج صاحب امروہوی خلیفہ حضرت تھانوی کی سوانح۔’’ذکر جامی‘‘حضرت مولانا عبدالرحمان صاحب جامی خادم خاص مولانا وصی اللہ صاحب کی سوانح۔’’تذکرہ مولانا عبدالقیوم صاحب فتح پوری‘‘ اور حضرت چاند شاہ صاحب اور ان کا خانوادہ تصوف۔ مولانا جب غازی پور میںتدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اس وقت ایک سلسلہ مضامین ’’نمونے کے انسان ‘‘کے نام سے شروع کیا،جس میں بزرگان دین کے واقعات و حکایات ہوتی تھیں، اور اس کی قسطیں مجلہ’’ الریاض‘‘ گورینی میں شائع ہوتی رہیں،یہ سلسلہ لمبی مدت تک چلا،اس کے بعد جب مجلہ’’ المآثر‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی تو اس میں بھی