نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
شہدا کا دمِ واپسیں پہلا شہید: حضرت امیر المومنین سید احمد شہید قدس سرہ کے حالات میں منقول ہے کہ: ’’ہدایت اللہ بانس بریلی کہتے ہیں کہ جس وقت کالے خان کے گولہ لگا اور وہ گھوڑے سے گرپڑے اور صف آگے بڑھ گئی،اور ہم کئی آدمی ان کو وہاں سے مایامار کی مسجد کے حجرے میں اٹھا لائے،وہ جان کنی کی حالت میں تھے،گھڑی گھڑی دو دوگھڑی کے فاصلے سے انہوں نے پوچھا کہ بھائی لڑائی کا کیا حال ہے؟اور کس کی فتح ہے؟اس وقت درانیوں کا پہلا اور دوسرا غول آیا تھا،میں نے ان سے کہا ،ابھی تو معاملہ گڈمڈ ہے،ابھی تک فتح وشکست کسی کی نہیں ہوئی ہے،یہ سن کر وہ چپ ہورہے اور ’اللہ اللہ‘ کیا کئے،پھر جب درانیوں کا دوسرا غول آیا اور شکست کھاکر بھاگ گیا تب انہوں نے پھر پوچھا کہ اب لڑائی کا کیا طور ہے؟کسی کی فتح ہوئی یا نہیں؟میں نے کہا، اللہ تعالی نے ہمارے سید صاحب کو فتح یاب کیا،یہ خوش خبری سن کر انہوں نے کہا’الحمدللہ‘اسی دم ان کا دم نکل گیا۔ (سیرت سید احمد شہید۔ج۲۔ص۲۶۰)دوسرا شہید: قاضی گل احمد الدین صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ایک جگہ دیکھا کہ سید ابو محمد صاحب زخمی پڑے ہیں،مگر ایسے کاری زخم لگے تھے کہ قدرے جان تو ان میں باقی تھی،ہوش وحواس کچھ برجا(بجا) نہ تھے،میں نے کئی بار ان کے کان میں پکار کہا کہ سید ابو محمد!حضرت امیر المومنین کی فتح ہوئی، انہوںنے کچھ خیال نہ کیا،اور نہ کچھ جواب دیا،مگر ان کا حال یہ تھا کہ اپنے ہونٹ چاٹتے جاتے تھے اور’ الحمدللہ‘ کہتے جاتے تھے،اور جو لوگ لاشیں اٹھا رہے تھے،میں نے ان کو آواز دی کہ کوئی ادھر آئو، سید ابو محمد صاحب ادھر پڑے ہیں،ادھر سے ایک آدمی آیا،میرے پاس ایک کمبل تھا،