نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
اورعقیدت مندانہ ملتے تھے، والد صاحب سے اپنا بوجھ اٹھوانے پر ہرگز راضی نہ ہوتے، یا عمر بھر ندامت کے بوجھ میں دبے رہتے، حضرت والد صاحب فرماتے ہیں کہ میںنے جلدی سے سر پر رومال لپیٹ کر اوپر سے چادر ڈالی،اورمزدورانہ ہئیت میں تیزی سے پہونچ کر کہا، سامان رکھواؤ، کہاں جانا ہے؟ انہوں نے پتہ مختصراً بتاتے ہوئے، سر پر سامان لادنا شروع کیا، پہلا بکس ہی اتنا بھاری تھا کہ میں نے کبھی نہیں اٹھایا تھا، اوراس پر دوسرا بکس رکھا، تیسرا میرے ہاتھ اوربغل میں تھمانا چاہتے تھے، میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان بکسوں کو سنبھالتے ہوئے کہاکہ حضور میں کمزور آدمی ہوں، زیادہ نہیں اٹھا سکتا، یہ آپ سنبھال لیں، یہ مختصر قافلہ روانہ ہوا، بوجھ سے میرے پاؤں ڈگمگا رہے تھے، مگر میری اس کمزوری کو میری ٹارچ نے چھپالیا، جو انہیں راستہ دکھا رہی تھی، اورمیری طرف متوجہ ہونے کا موقع نہیں دے رہی تھی، ان کے قیام گاہ پر سامان اتارا، اوریہ کہہ کر ذرا اندر گئے کہ ابھی پیسے دیتے ہیں، میں موقع پاکر وہاں سے غائب ہوگیا، اگلے دن خانقاہ میں حسب سابق تعظیم سے ملے، انہیں کیا معلوم کہ وہ ایک قلی سے مل رہے ہیں۔(البلاغ مفتی اعظم نمبر ج۱ ۔ ص۱۱۰)افشاء راز: مولانا محمد رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ والد صاحب نے ہمیشہ راز میں رکھا، حتیٰ کہ جن صاحب کا سامان اٹھایا تھا، انہیں بھی عمر بھر معلوم نہ ہوسکا، کہ وہ فرشتہ صفت قلی کون تھا، تقریباً بیس سال بعد ہم سب بھائیوں کے سامنے یہ راز اس طرح کھلا کہ کراچی میں جب احقر کی عمر پندرہ سال کی تھی، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، اس زمانہ میں ہماری والدہ صاحبہ کو ہم بھائیوں سے بار بار یہ شکایت پیش آتی تھی کہ وہ گھر کا سودا سلف لانے کے لئے فرماتیں، ہم لڑکپن کی لا پرواہی میں ایک دوسرے پر ٹال دیتے، والدہ ماجدہ کو اس سے جو تکلیف ہوتی ہوگی، اب اس کے تصور سے بھی ڈر لگتاہے، انہوں نے کئی بار والد صاحب کو توجہ دلائی، اورشکایت کی کہ یہ لوگ بازار سے سامان لانے میں عار سمجھتے ہیں، اس لئے ٹالتے ہیں، والد صاحب چشم پوشی فرماتے رہے، آپ کی عادت تھی کہ کسی غلطی پر بار بار نہیں ٹوکتے تھے، فہمائش کے لئے زیادہ سے زیادہ مؤثر موقع کا انتظار فرماتے، اورایسے وقت تنبیہ فرماتے، جب سب کو فراغت، طبیعتوں میں نشاط ہو، ایک دن ہم سب