نمونے کے انسان |
زرگان د |
|
کے خلفاء میں ایک امتیازی مقام کے مالک تھے، لیکن تواضع وفنائیت کے اس مقام پر فائز تھے کہ پہچاننا دشوار تھا ، مولانا کا قیام ابتداء ً کلٹی ضلع بردوان میں تھا، بعد میں رانی ساگر جو ضلع بھوجپور میں واقع ہے، تشریف لائے، تو ان کے شاگرد مولانا محمد اسحاق صاحب (والد محترم مولانا عبدالجلیل صاحب) نے عرض کی ، حضرت! بھوجپور شہر یہاں سے قریب ہے، وہاں کے مسلمان جہالت و گمراہی میں غرق ہیں، چوری ڈکیتی بطور پیشہ کے کرتے ہیں، نماز روزہ اوردین داری سے کوسوں دور ہیں، علم دین کی روشنی نام کو بھی نہیں، ظلمتوں کے سایے بہت گہرے ہیں، اگر آپ توجہ فرمائیں تومسلمانوں کی کچھ اصلاح ہو، مولانا اس وقت خاموش تو رہے، چار پانچ روز کے بعد تنہا اٹھے، اور بھوجپور جانے والے ایک یکہ پر سوار ہوئے، یکہ بان نے پوچھا کس بھوجپور جائیں گے، نئے یا پرانے؟ فرمایا بھائی میں یہ نہیں جانتا، جہاں مسلمان زیادہ آباد ہوں،وہاں لے چلو، اس نے نیا بھوجپور جامع مسجد کے پاس مولانا کو اتار دیا، ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو تھوڑے سے نمازی آئے، ان میں سے کوئی مولانا کا شناسا نہ تھا، ان لوگوں نے مولوی صورت دیکھ کر مولانا کو امامت کے لئے آگے بڑھا دیا، نماز کے بعد کسی نے اپنی مقامی زبان میں کہا’’مولبی صاحب! لَیْکاپڑھبَ‘‘ یعنی مولوی صاحب لڑکوں کو پڑھائیں گے، مولانا نے فرمایا کیوں نہیں، ضرور پڑھائیں گے، اس نے پھر کہا ’’سن لا کھائے کے ملی، پیسہ ناملی، ہوسکَ تو پڑھاوا‘‘ (سن لیجئے !کھانے کو ملے گا،پیسہ نہیں ملے گا،اگر یہ صورت قبول ہوتو پڑھائیے)فرمایا کہ آدمی پیسہ کھانے ہی کے لئے لیتا ہے، جب کھانا مل جائے گا تو پیسہ کی کیا ضرورت؟۔حکیمانہ انداز: پھر مولانا وہیں مسجد میں رہ پڑے، پانچوں وقت کی نماز پڑھاتے، اوربچوں کو تعلیم دیتے، جب بچے اچھی طرح مانوس ہوگئے، تو ایک روز ان بچوں سے فرمایا: بچو! یہ بتاؤ کہ کوئی غیر آدمی تم لوگوں کی ماؤں کا بال پکڑ کر گھسیٹے، تو تم لوگ کیا کروگے؟ بچوں نے بیک زبان کہا کہ ہم اس کو جان سے ماردیں گے۔ مولانا شاباشی دیتے ہوئے فرمایا، بچو! ایک بیٹے کو اپنی ماں سے ایسا ہی تعلق اورمحبت ہونی چاہئے، لیکن بچو! یہ بتاؤ کہ تم لوگوں کی مائیں نماز نہیں پڑھتیں، مرنے کے بعد فرشتے اگر ان